یہ تصدیق حضرت محمد ﷺ کے ماننے والوں نے نہیں کی اور وہ بھلا کر بھی کیسے سکتے ہیں (وہ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں) کیونکہ ایسے کاموں کیلئے تاریخ کھنگالنی پڑتی ہے، مذاہب کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے، معیشت اور معاشرتوں کو کھوجنا پڑتا ہے غرض یہ کہ جہاں تک ناممکن ہو وہاں تک جانا پڑتا ہے پھر کہیں جاکہ کوئی تاریخی فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک تاریخی کتاب 1978 میں امریکی لکھاری مائیکل ہارٹ نے تحریر کی اور اس تاریخی تصنیف کا نام تاریخ کے سب سے مؤثر 100 کی درجہ بندی ہے (کتاب انگریزی زبان میں ہے)۔ اس کتاب کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ مصنف نے 100 افراد کی درجہ بندی میں سب سے پہلا نام و شخصیت حضرت محمدﷺ کو قرار دیا اور قبل از وقت ناقدین کی تنقید کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وضاحت بھی لکھ دی۔ یہ کتاب اپنے پہلے دورِ اشاعت میں کافی متنازعہ رہی اور ہونی بھی چاہئے تھی کیوں کہ سچائی کی تلخی کہاں برداشت ہوتی ہے۔
ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے ایمان کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ محسنِ کائنات ہیں اور یہ ایک ایسی کائناتی سچائی ہے جسکی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں ۔ لیکن حق اور سچ کی تلاش جاری رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ دنیا جہان میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں لوگوں کہ رہن سہن سے متاثر ہوتے ہیں، لوگوں کی عادات و اطوار سے متاثر ہوتے ہیں غرض یہ کہ ایک دوسرے سے کسی نا کسی وجہ سے متاثر ہوتے رہتے ہیں لیکن شرط یہ بھی ہے کہ دلوں پر مہر نہ لگ گئی ہو۔ جن لوگوں نے اسلام کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی تو وہ ہمارے پیارے نبی ﷺ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا اور اگر اسکے آڑے ابو جہل والی منطق نہیں آئی تو وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ ایسا ہر دور میں ہوتا رہا ہے، ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔
اسلام کا مطلب ہی سلامتی ہے، تو پھر جو اس سے وابستہ ہوگا وہ سلامتی کا ضامن ہوگا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو بادشاہ جو آج ہمیں بوسیدہ کتابوں میں دفن ہوئے لکھے نظر آتے ہیں کس طرح قلعہ بند رہا کرتے تھے ، کیسے کیسے نا قابل تسخیر محلات بنائے گئے جو آج کھنڈرات کی صورت اختیار کئے ہوئے ۔ جب کبھی لاہور کے بادشاہی قلعہ جانا ہوتا ہے اور وہاں لوگوں کا ہجوم نظروں میں گھسا جاتا ہے تو ایک طرف بیٹھ کر یہ سوچتا ہوں کہ یہ وہ راہداریاں ہیں کہ ان قلعوں اور محلوں میں رہنے والوں کو نہیں پتہ ہوپاتی تھیں ۔ جو ایک کونے میں رہتا تھا تو وہ ساری زندگی وہیں گزار کر وہیں کہیں کسی کونے میں دفن کردیا جاتا تھا۔ یہ قلعے اور یہ محلات طاقت کی علامت سمجھے جاتے تھے انہیں دفاعی حصار کہا جاتا تھا یعنی یہ سمجھ لیا جائے کہ قابل قدر اور اہم ترین زندگی بادشاہ اور بادشاہ کہ اہلِ خانہ کی ہوا کرتی تھی باقی رعایا کو حشرات العرض سے زیادہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ پھر ان قلعوں اور محلوں میں ہی سارا اسلحہ خانہ ہوا کرتا تھا غرض یہ کہ تمام حفاظتی امور قلعہ اور قلعے کے مکینوں کی زندگیوں کی حفاظت کیلئے ہوتے تھے۔
پھر تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ ہاتھیوں کا ایک لشکر ابراہ نامی بادشاہ کی سربراہی میں اللہ کے گھر خانہ کعبہ کو ڈھانے کا تہیہ کرکے نکلااور جو خانہ کعبہ کے محافظ تھے وہ یہ کہہ کر کہ جس کا گھر ہے وہ خود ہی دیکھ لے گا ، تو پھر ہاتھی والوں کیساتھ کیا ہوا چھوٹے چھوٹے پرندوں کی چونچ میں کتنے چھوٹے چھوٹے کنکر آئے ہونگے ، اس خدائے بزرگ و برتر نے ان کنکریوں سے ہاتھیوں کو بھوسے میں بدل کر رکھ دیا۔ ان باتوں سے جو علم حاصل ہوا وہ یہ کہ قلعے، محلات یا ہاتھی کسی قسم کی حفاظت کی ضمانت نہیں ہوسکتے ہاں یہ دنیاوی ضروریات ضرور ہیں ایک دوسرے پر رعب و دبدبا قائم رکھنے کیلئے ضروری ہیں۔ اب ہمارے پیارے نبی ﷺ کی رہائش گاہ دیکھ لیجئے ، سواری دیکھ لیجئے، حفاظتی حصار دیکھ لیجئے، ازدواجی زندگی دیکھ لیجئے، اوڑھنا بچھونا دیکھ لیجئے، تجارت اور تجارتی سفر دیکھ لیجئے، جنگی حکمت عملی دیکھ لیجئے، مال غنیمت کا معاملہ دیکھ لیجئے، ہجرت کا سفر دیکھ لیجئے ، معاشرتی و معاشی امور دیکھ لیجئے، آپ کو ہر جگہ وسیع النظری، فہم و فراست، تدبیر و تدبر سے دیکھائی دے گا۔ بغیر قلعے کے بغیر محل کے، بغیر ہاتھیوں کے اور بغیر اسلحے کے کارخانوں کے رحمت اللعالمین ﷺ بنا دیا اور رہتی دنیا تک کیلئے مشعلِ راہ بنادیا ۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ اغیار نے تو تحقیق کرلی اور بہت کچھ اخذ کرلیا اور بہت کچھ اپنی اپنی سطح پر نافذ العمل کرلیا ۔ علم کسی کی میراث تو ہے نہیں کہ فلاں کا علم فلاں کے کام نہیں آسکتا علم تو کائنات میں معلق ہے جو بھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے وہ اسے فائدہ پہنچا دیتا ہے ۔ ہمارے نبی ﷺ کی تعلیمات انسانیت کیلئے ہیں جو بھی چاہتا ہے اس سے فیضیاب ہوتا ہے اور رہتی دنیا تک انسانیت فیضیاب ہوتی رہی گی۔
نیوزی لینڈ میں ہونے والے دہشت گردی کے اندوہناک واقع نے اسلامی دنیا جو عرصہ دراز سے سہمی ہوئی ہے ایک تہلکہ خیز خبر سے لرز کر رہ گئی، اور غم و غصہ اور تناؤ کا ماحول بن گیا تھا۔ اس واقع کے بعد کسی بھی قسم کی ایسی ہی کاروائی کی تواقع کی جارہی تھی لیکن ایسے میں نیوزی لینڈ کی 48 سالہ خاتون وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے ایک انتہائی قدم اٹھایا اور حقیقی قائد ہونے کی عملی مثال قائم کی جہاں واقع کی بھرپور مذمت کی گئی وہیں وزیر اعظم حالات کی نزاکت سے بیخوف لواحقین سے ملنے جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں اور ان کا افسردہ اور غمزدہ چہرہ گواہی دے رہا تھا کہ انہیں اپنے ہم وطنوں سے بلاتفریق رنگ نسل و مذہب برابر کا لگاؤ ہے، وہ دنیا کے اس بے ہنگم دور میں بھی موقع اور محل سے شناسائی کا مظہر دکھائی دیں اور سوگ میں کالا لباس اور باقاعدہ سر ڈھکا ہوا (کسی مشرقی عورت کی تصویر بنی ہوئی تھیں)، انہوں نے نیوزی لینڈ میں بسنے والوں پر یہ بات واضح کردی کہ وہ سرزمین نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم ہیں ناکہ اپنی سیاسی جماعت یا اپنے مذہب یا اپنے رنگ جیسوں اوراپنی بولنے والی زبان والوں کی وزیر اعظم ہیں۔یہاں معاملے کو دنیا جہان میں ہونے والے واقعات کی طرح ضابطے کی کاروائیوں کیلئے نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ اگلے ہی دن اسمبلی کے اجلاس میں پہلے تو السلام و علیکم کہہ کر سب کو حیرت میں ڈال دیا،پھر قرآن پاک کی تلاوت سے آغاز کیا گیا ، اسلحے کے حوالے سے قانون میں ترمیم کا بل پیش ہوا جو بھرپور حمایت سے منظور کر لیا گیا،یہ اعلان بھی کیا گیا کہ جمعہ جو مسلمانوں کیلئے آدھی عید سمجھا جاتا ہے کہ دن سرکاری ریڈیو اور ٹیلیویژن پر آذان نشر کی جائے گی، ایسے ہوتے ہیں قائد اور انکے فیصلے۔ آج جمعہ ہے اور وزیر اعظم نیوزی لینڈ جمعہ کی نماز کے اجتماع گاہ پہنچ گئیں اور قبل نماز وہاں نمازیوں سے ملیں اور انہیں اس بات کا احساس دلانے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ دیارِ غیر میں نہیں ہیں نیوزی لینڈ انکا بھی اتنا ہی ہے جتنا کے مقامیوں کا،بات یہاں بھی پوری نہیں ہوتی اب دیکھئے جب قائد کا کردار ایسا ہوتا ہے تو پیروکاروں کا طریق بھی بدل جاتا ہے نمازیوں کی حفاظت کیلئے کوئی فوج نہیں بلائی گئی اور ناہی پولیس بلکہ علاقہ مکینوں نے نماز کی جگہ کا حفاظتی حصار ہاتھوں کی زنجیر سے بنالیا ۔ شاید جب مکہ کے مہاجرین یثرب کی سرزمین پر پہنچے تھے تو انصار نے ایثار اور قربانی کی تاریخ رقم کی تھی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی اور نہ ہی مل سکے گی لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر گواہی دیں کہ کیا نیوزی لینڈ والوں نے ایسی کوشش نہیں کی؟ کیا وہ انصار اور مہاجرین سے واقف ہیں؟
ہمیں نہیں معلوم نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اسلام کو کتنا سمجھتی ہیں لیکن انہوں نے اسلامی اقدار کی روایات کی پاسداری کر کہ عالم اسلام کا تو پتا نہیں لیکن اسلام کے قلعہ کے نام سے جانے والے ملک پاکستان کی عوام کے دل خوب جیت لئے ہیں۔ اس بات کی گواہی ایک بیباک اور نڈر وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ہم منصب کو فون پر اس بات سے آگاہ کیا اور انکے اقدامات کو پوری قوم کی جانب سے خراج تحسین پیش کیا جس کی جسنڈا آرڈرن مستحق ہیں۔ آنے والے وقت میں یقین سے لکھ رہا ہوں کہ وہ بہت جلد پاکستان کا دورہ کرنا چاہیں گی۔
بات قیادت سے چلی ہے اور قیادت نبی پاک ﷺ سے ۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان ریاست مدینہ کا تصور لئے اقتدار میں آئے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان مغربی دنیا سے بہت اچھی طرح واقف ہیں وہ انکی زبان بھی خوب جانتے ہیں اور انکے طور طریقے بھی ، انہیں انکی ترقی کے راز بھی پتہ ہیں وہ خوب سمجھ چکے ہیں کہ دین و دنیا کی صرف نبی پاک ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہی مل سکتی ہے جیسی کہ مغرب نے حاصل کی ہے ۔وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی ہواباز کو رہا کرکے امن کا پیغام دنیا کو دیا تھا اور یہ پیغام جہاں پہنچنا تھا وہاں تو خیر ابھی نہیں پہنچ سکا لیکن نیوزی لینڈ پہنچ گیا ۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ہندوستان کی عوام کیلئے نیوزی لینڈ میں ہونے والے واقع کے بعد سے لیکر ابتک کے واقعات انسانیت کے دشمنوں کیلئے انسانیت کے پیغامات کے مترادف ہیں۔
وہ جو ایک خوف تھا کہ ایٹم بم دنیا کو نیست و نابود کرکے رکھ دے گا، دنیا اب رہنے کے قابل نہیں رہی ہے نیوزی لینڈ والوں نے اس خوف کو شکست دینے کیلئے اپنے خیرخواہی کے عمل سے ایک بھرپور کاری ضرب لگائی ہے ۔ اب دوبارہ سے ہمارے نبی ﷺ کی جلائی شمع جس کی لو کی روشنی سے دنیا میں پھر سے روشنی کے چراغ جلناشروع ہونے والے ہیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق نیوزی لینڈ میں پچاس شھادتوں کے بعد ساڑے تین سو افراد نے اسلام قبول کر لیا ہے ۔ یہ وہ شمع ہے جو ساڑے چودہ سو سالوں سے جل رہی ہے اس کوبجھانے کی کوشش کرنے والے بجھ گئے لیکن اس شمع پر واری جانے والے بڑھتے ہی چلے گئے اور بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں ۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو کہ آج کے قائدین مدینے کی ریاست کے قائدﷺ کو سمجھ گئے ہیں دنیا کی ترقی نے جزدانوں پر پڑی صدیوں کی دھول اڑا دی ہے، نسخہ کیمیاء سمجھ آگیا ہے اور اللہ کے رسول ﷺ کی قائدانہ صلاحیتوں کی معترف ہوتی چلی جا رہی ہے۔