عام اتحاد لوگ کے چیئرمین اور دو بار کے صدارتی امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے آئی ایم ایف پروگرام پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بیل آؤٹ پیکج زخم پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔
پی ٹی آئی چھوڑنے والے جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے ایک بیان میں کہا کہ 6 ارب ڈالر قرض وہ بھی 39 ماہ کی قسطوں میں ’’بہت کم، بہت دیر سے‘‘ سے والی بات ہے۔ اس کے عوض بجلی کے نرخوں میں اضافہ، مزید ٹیکس، ایل این جی پلانٹس کی نجکاری اور روپے کی قیمت کو مارکیٹ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔ اسٹیٹ بینک میں جہاں عالمی مالیاتی ادارے کا نمائندہ گورنر بنا دیا گیا ہے، اب سے مکمل آزاد ہوگا-
چیئرمین عام لوگ اتحاف کا کہنا تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہر برس تقریباً 18 ارب ڈالر بھیجتے کرتے ہیں، ان کیلئے ہمارے پاس اظہار تشکر تو درکنار، اعتراف کے چند الفاظ بھی نہیں ہیں۔ اب جبکہ ہمارے سیاسی ، معاشرتی اور معاشی گناہ ملک کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں اور ہمیں بہرحال روکھی سوکھی پر ہی گزارہ کرنا ہے تو ہمیں ایک برے سودے کا بہترین استعمال کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کے اس پیکج سے بھی مستفید ہوا جا سکتا ہے، لیکن اس کیلئے بہتر منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔ (we have to make the best of a bad)
انہوں نے تجویز دی کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو یہ کہ ہمیں اتنے ہی پاؤں پھیلانے ہوں گے جتنی ہماری چادر ہے۔ یعنی درآمدات و برآمدات میں توازن پیدا کرنا ہوگا۔ اس واحد عمل سے زرمبادلہ کی بچت ہوگی اور روپے کی قدر مارکیٹ کی اثر انگیزی و دباؤ کے باوجود نہ صرف گرنے نہ پائے گی بلکہ بڑھے گی۔ ہنگامی بنیادوں پر بجلی کی 20 فیصد چوری روک کر تقریباً پانچ ارب ڈالر کی بچت اپنانی ہوگی، جس کے نتیجے میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے گی۔
اسی طرح ایل این جی کارخانوں کی نجکاری اور ان اداروں کی نجکاری کا مسئلہ ہے، جو پاکستانی قوم کا خون چوس رہے ہیں، جیسے پاکستان اسٹیل مل و پی آئی اے وغیرہ ہیں۔ ان کی نجکاری پبلک پرائیویٹ شراکتوں کی بنیاد پر ہونی چاہیں، جن میں غیر ملکی سرمایہ کاری ممنوع ہو۔ پی ٹی سی ایل اور کے الیکٹرک کی غیر ملکی کمپنوں کو فروخت کا خمیازہ ہم ابتک بھگت رہے ہیں۔ ان سے ہمیں تو کچھ ہاتھ آیا نہیں، جبکہ یہ غیر ملکی سرمایہ کار اربوں ڈالر ہر برس یہاں سے بلا روک ٹوک لے جارہے ہیں۔
عام لوگ اتحاد کے سربراہ کے مطابق ایک بہت بڑا مسئلہ آئی پی پیز کا ہے جو اگر بجلی پیدا نہ بھی کر رہے ہوں تب بھی انہیں ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیں، ان تمام معاہدوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ محصولات میں اضافہ کیا جائے، جو کوئی مشکل کام نہیں۔ اس کیلئے بڑی مچھلیوں کے گرد ٹیکس کا جال پھیلانا ہوگا اور ٹیکس کی چوریوں سے خلاصی حاصل کرنا ہوگی۔
جسٹس (ر) وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل پیرا ہو کر خود آئی ایم ایف کے پروگرام کے ذریعے ہی ایسی معاشی تبدیلی لائی جا سکتی ہے کہ آئندہ آئی ایم ایف یا اس جیسے اداروں کی طرف دیکھنے کی بھی ضرورت نہ پڑے، جیسے بھارت نے 90 کی دہائی میں صرف ایک مرتبہ آئی ایم ایف سے استفادہ کیا اور پھر کبھی اس طرف رجوع کی ضرورت تک نہ پڑی۔