انہوں نے 499 ھ میں بمقام خلیل حضرت ابراہیمؑ کے مزار مبارک پر حاضر ہو کر تین باتوں کا عہد کیا۔ اول کسی دربار میں نہ جاؤں گا۔ دوم کسی بادشاہ کا عطیہ نہ لوں گا۔ سوم کسی سے مناظرہ و مباحثہ نہ کروں گا۔
امام صاحب کی بعض تصانیف کی وجہ سے اکثر لوگ ان کے مخالف تھے۔ سلطان سنجر بن ملک شاہ سلجوقی اس زمانے میں خراسان کا بادشاہ تھا۔ وہ خود صاحب علم نہ تھا۔ اس لیے بدگوؤں نے اس کو دبا لیا اور ظاہری جبہ و دستار والوں نے جو کچھ کہا، اس پر اس کو یقین آگیا اور امام غزالیؒ کو بلوایا۔
انہوں نے ایک خط بادشاہ کو لکھا کہ میں نے عہد کیا ہے کہ کسی بادشاہ کے پاس نہ جاؤں گا۔ دس سال سے اس پر عمل کررہا ہوں۔ سلطان شہید (ملک شاہ) نے اس دعاگو کو معذور رکھا ہے۔ اب میں نے سنا ہے کہ مجلس عالی نے میری حاضری کا حکم دیا ہے۔ میں شاہی فرمان کے لحاظ سے مشہد رضا تک آیا ہوں، لیکن بادشاہ نے نہ مانا، مجبوراً آئے۔ وزیر اعظم نے استقبال کیا۔ سنجر نے معانقہ کے بعد تخت کے قریب جگہ دی۔
گفتگو کے خاتمے کے بعد امام غزالیؒ نے بادشاہ سے کہا: طوس کے لوگ پہلے ہی بد انتظامی اور ظلم کی وجہ سے تباہ تھے، اب سردی اور قحط کی وجہ سے بالکل برباد ہو گئے۔ ان پر رحم کر، خدا تجھ پر بھی رحم کرے گا۔ لوگوں کی گردنیں مصیبت سے ٹوٹی جاتی ہیں اور تیرے گھوڑوں کی گردنیں طوقہائے زریں کے بار سے لدی ہیں۔ (الغزالی ص 26)
صدر الدین محمد بن فخر الملک بن نظام الملک سنجر کا وزیر تھا۔ اس نے مدرسہ نظامیہ بغداد کی صدر مدرسی کے لیے امام غزالیؒ کو ایک خط لکھا۔ دربار خلافت سے بھی نظامیہ کے درس کے لیے دعوت آئی تھی اور اس دعوت پر علاوہ خلیفہ بغداد مستظہر باللہ کے تمام ارکان خلافت کے دستخط تھے۔
امام صاحبؒ نے ان خطوط و فرامین کے جواب میں ایک طویل خط لکھا اور بغداد نہ آنے کے متعدد عذر لکھے، جن میں دو عذر یہ بھی تھے کہ موجودہ ڈیڑھ سو طلبا کو جو علم حاصل کرنے میں مشغول ہیں، بغداد جانے میں زحمت ہوگی۔ میں نے عہد کیا ہے کہ کبھی مناظرہ و مباحثہ نہ کروں گا اور بغداد میں مباحثہ کے بغیر چارہ نہیں۔ اس کے سوا دربار خلافت میں سلام کے لیے حاضر ہونا ہوگا اور میں اس کو گوارا نہیں کر سکتا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مشاہرہ اور وظیفہ قبول نہیں کر سکتا اور بغداد میں میری کوئی ایسی جائیداد نہیں، جس سے میرا گزارہ ہو سکے۔ غرض امام صاحبؒ نے صاف انکار کر دیا۔
علمائے کرام وظائف کو اس بنا پر جائز سمجھتے تھے کہ قرون اولیٰ صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کو سلطنت کی طرف سے وظائف ملتے تھے اور وہ لوگ قبول کرتے تھے۔ امام صاحبؒ اس استدلال کو نقل کرکے لکھتے ہیں کہ یہ قیاس مع الفارق (یعنی غلط قیاس) ہے۔ اولاً تو اس زمانہ میں محاصل سلطنت ایسے مشتبہ نہ تھے، جیسے اب ہیں۔ دوسرے بڑا فرق یہ ہے کہ اس زمانہ میں امراء اور حکام علماء کی رضا جوئی کے حاجت مند تھے۔ خود ان کی طرف سے درخواست اور آرزو ہوتی تھی اور علماء میں سے کوئی شخص وظیفہ قبول کر لیتا تھا تو امراء خود ممنون ہوتے تھے۔ اس وجہ سے صحابہ کرامؓ و تابعینؒ کو باوجود وظیفہ خوری کے امر حق کے اظہار میں کبھی باک نہ ہوتا تھا۔ وہ بھرے دربار میں خلفائے بنی امیہ کو زجر و توبیخ کرتے تھے اور خلفاء ان کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے تھے۔
بخلاف اس کے آج کل (یعنی پانچویں صدی ہجری میں) وظائف کے حاصل کرنے کے لیے یہ امور اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ اول دربار کی آمدو رفت، دوم دعا و ثناء، سوم بادشاہوں کے اغراض و مطالب میں اعانت، چہارم جلوس وغیرہ میں شرکت، جانثاری کا اظہار سلاطین کے عیوب کی پردہ پوشی۔
یہ شرطین گنا کر امام صاحب لکھتے ہیں، اگر ان میں سے ایک شرط کی تعمیل رہ جائے تو سلاطین ایک درہم بھی نہ دیں گے۔ گو مولوی صاحب کا رتبہ امام شافعیؒ کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔ (حوالہ بالا)