ڈاکڑ حمید اللہ صاحب نے عرب کی علمی حالت کو اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے کہ مکے میں لکھنے پڑھنے کا رواج بالکل نہ تھا ۔ گنتی کے دس بارہ آدمیوں کو لکھنا آتا تھا ۔ لیکن شعر و شاعری اور فصاحت و خطابت کے خوب چرچے تھے ۔ وہ اپنے بچوں کو گھر میں رکھنے کی جگہ بدوی قبائل میں بھیج دیتے تھے ۔ تاکہ ٹھیٹ عربی لہجہ اور خالص عربی زبان سیکھیں ۔
یہ مکے ہی کا قومی معبد کعبہ تھا جس میں لٹکانے کی عزت حاصل ہو تو کوئی قصیدہ معلقات میں شامل ہونے کی زندہ جاوید عزت حاصل کرتا ۔ عکاظ کی سالانہ بین العرب موتمرِادبی گویا قریش ہی کی سرپرستی کی رہین منت تھی، اور ادائے حج کعبہ پورے عرب زبان کو ایک بنانے اور قریشی علاقے کی بولی کو معیار اور ٹکسالی بنانے میں خاموش لیکن نہایت موثر حصہ لے رہے تھے ۔ یہ قریش کی ادب نوازی ہی تھی کہ ان کو نہ تو یدبیضا کے معجرے کی ضرورت تھی اور نہ دم عیسیٰ کی ۔
بلکہ تھی تو ایک ادبی شہہ پارے کی ۔ جسے سن کو وہ جھومنے لگتے ۔ اور جس کی تلاوت کو سننے کے لیے وہ باوجود اپنی ضرب المثل مخالفت کے چھپ چھپ کرآتے ۔
یہ ادبی ذوق لیکن نوشت وخواند سے امی محض ہونا نسہا نسل کی خصوصیت تھا ۔ اسی لیے انہیں اپنے مطلب کی چیزیں خاص کر اپنے کاروباری حسابات اور قرضداروں کے نام اور رقمیں یاد رکھانے پر مجبور کرکے ان کے حافظے کی قوت کو غیر معمولی طور پر مستحکم کردیا تھا، جو ناگزیر تھا ۔ اس سے بعد کو قران و حدیث کے تحفط کا خود بہ خود انتظام ہوگیا ۔
جاری ہے