یہ ممکن نہیں کہ سوچوں کی بھرمار آپ کے ذہنوں میں گھنسنے کی کوشش نا کرتی ہو، اس عمل کو زندہ ذہنوں کی علامت سمجھ سکتے ہیں،یہاں یہ سوال بھی آجاتا ہے کہ کتنے اذہان ان سوچوں کو جگہ دیتے ہیں اور کتنے انہیں خود لگائی گئی چھلنی سے گزار کر منتخب شدہ عمل کیلئے گنجائش دیتے ہیں۔
چھلنی تو ہر دماغ میں لگی ہوتی ہے جو اپنی پسند کی سوچ کو اندر آنے کی بلا تعطل اجازت دے دیتی ہے اور بھلے ہی حق بات کیوں نا ہو اگر پسند نہیں تو فوراً خارج کردیتی ہے۔ سماجی ابلاغ کے اس دور میں کسی مخصوص سوچ پر زیادہ دیر تک دھیان دینا تقریباً ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔
یہاں یہ بھی لکھنے دیجئے کہ دماغوں کا یا سوچوں کا اختیار اب ہمارے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ان آلات کے پاس ہے جو سڑکوں پر حادثوں کا باعث بھی بن رہے ہیں، چولہے پر رکھی ہانڈی کے جلنے کا سبب بھی بن رہے ہیں، جو فیڈر بچے کے منہ میں لگانے کی بجائے ساتھ بیٹھی بلی کے منہ میں لگانے کا سبب بھی بن رہے ہیں،اورسب سے بڑھ کر گھریلو زندگیوں کو برباد کرنے کے بھی آلہ کار بن رہے ہیں۔
غرض یہ کہ تقریباً ہر طر ح کے امور و معمولات کو برباد کرنے میں کارگر ثابت ہو تے دکھائی دے رہے ہیں (دشمن نے اطمینان کا سانس لیا ہوا ہے کہ سماجی، اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو بڑی آسانی سے بغیر کوئی بم گرائے برباد کردیا ہے اوریقیناً اس کا کام ٹھیک سمت میں پیش رفت کر تا جارہا ہے یعنی سانپ بھی مر رہا ہے اور لاٹھی بھی نہیں توڑنی پڑ رہی)۔
آپ اپنے ہاتھ میں پکڑے موبائل میں کچھ دیکھتے ہیں اور اسک ے بارے میں سوچنے ہی لگتے ہیں اور ابھی سوچنے کا عمل شروع ہی ہوا چاہتا ہے کہ کوئی نئی چیز آپ کے سامنے آجاتی ہے جو سوچ کے زاوئیے کو یکسر بدلنے کیساتھ ساتھ مزاج ہی بدل دیتی ہے اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک آپکی انگلیاں آپ کی آنکھوں کی طلب تک نہیں پہنچ پاتیں جسے تقریباً ناممکن سمجھ لیاجائے تو غلط نہیں ہے۔
بعض امور پر تو سماجی ابلاغ کسی میدان حرب کی سی صورت اختیار کرلیتا ہے اور بات زندگیاں اور عزتیں لینے تک پہنچ جاتی ہیں اور یہ سب ہم جانتے ہیں۔ یہ واقعات عوامی بھی ہیں اور اس کا شکار خواص بھی ہیں اور انہیں عوام کی آگہی کیلئے عام بھی کیا جاتا ہے (جوعزت جیسے لفظ کو ناپید کرنے کیلئے کارفرما ہے)لیکن کتنے فیصد لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں یا زندگیوں میں تبدلی رونما کرتے ہیں۔
ایک طرف تو اچھی تقلید کا ایسا طوفان ہے کہ جیسے سب کچھ بہا کر لے جائے گا اور اگلی صبح پوری امت فجر کیلئے باجماعت میدانوں میں نماز عید کی طرح پڑھتی دکھائی دے گی (انشاء اللہ ایسا ہوگا)، لیکن سونے کاوقت ہی فجر کے ساتھ آجاتا ہے۔
مادہ پرستی کا دور دورہ ہے،اور فقط جسم پیدا ہورہے ہیں اور جسموں کی تزئین و آرائش کے بندوبست کئے جاتے ہیں۔ تزئین و آرائش کی مطابقت سے یہاں مختصراً ایک بزرگ (غالب گمان شیخ سعدی ؒ)کا واقع نقل کرتا چلوں کہ کسی بادشاہ کے دربار میں حضرت کو ضیافت پر مدعو کیا گیا بزرگ وہاں اپنے مخصوص لبا س میں وہاں پہنچے تو دربانوں نے لباس دیکھ کر اندر جانے کی اجازت نہیں دی کیونکہ وہاں ریاست کے امراء جمع تھے۔
بزرگ شاہانہ لباس زیب تن کر کے واپس آئے تو بغیر کسی روک ٹوک بمع فرشی سلام سے استقبال کیا گیا، انواع واقسام کے کھانے لگائے گئے اور کھانا شروع ہوا بزرگ بادشاہ کے خاص مہمان تھے تو بادشاہ کے قریب تشریف فرما ہوئے اب جب کھانا شروع ہوا تو بزرگ نے کھانا اپنے کپڑوں کو کھلانا شروع کردیا یعنی کپڑوں پر لگانا شروع کردیا۔
لوگوں نے یہ دیکھا تو پوچھا کہ حضرت یہ کیا معاملہ ہے جس پر بزرگ نے آگاہ کیا کہ دعوت تو ان زرق برق کپڑوں کی تھی تو کھانا بھی انہی کو کھانا چاہئے۔ یہ واقعہ کتنا پرانا ہے نہیں معلوم لیکن انسان کی نفسیات یا جبلت میں یہ چیز شامل ہے کہ وہ زرق برق کے تابع رہتا ہے۔ ہر چمکتی چیز اسے اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے۔
قدرت توجہ دینے والوں کی توجہ اس بات سے اپنی طرف متوجہ کیوں نہیں کروا رہی کہ دنیا میں موجود تقریباً سات ارب انسانوں کی آبادی میں گنے چنے انسان ایک جیسی شکل کے ہوں گے جبکہ باقی ماندہ سب جدا جدا ہیں۔ قدرت کو کچھ اور مقصود ہے۔لفظوں کو دل تک رسائی ملنا آسان نہیں ہوتا، حالات و واقعات کی الفاظ کو دل تک رسائی دلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
آج الفاظ کا ایسا سمندر بہہ رہا ہے کہ شایدپانی کے سارے سمندر اس کے سامنے معمولی دکھائی دیں۔ اگر کوئی ان الفاظ سے قرطاس کو رنگین نہیں کررہا تو وہ بول کر اپنے الفاظ سماعتوں کیلئے معلق چھوڑ رہا ہے۔ کوئی نا کوئی پڑھ بھی لیتا ہے اور اسی طرح کوئی نا کوئی سن بھی لیتا ہے۔
شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ جب تک تیرا غرور اور غصہ باقی ہے اپنے آپ کو نیک لوگوں میں شمار مت کرنا۔یعنی نیک لوگوں میں شامل ہونے کیلئے یہ اولین ترجیح ہے کہ تحمل مزاج ہو جو کسی کی کسی بھی قسم کی بات کو سننے اور اسے برداشت کرنے کیساتھ ساتھ صحیح تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے بھی آراستہ ہو۔
بیشک یہ خداداد صلاحتیں اللہ رب العزت اپنے مقرب بندوں کو ہی دیتے ہیں اور انہیں معتبر کرنے کے اسباب بھی بنادیتے ہیں۔ ہم غور کریں تو ہم پہلے دن سے بچوں کی پرورش ہار اور جیت کیلئے کرتے دیکھائی دینگے، اچھا پڑھو گے تو اچھے نمبروں سے پاس ہوجاؤ گے، یہ کروگے تو یہ مل جائے گا۔
آج ڈوبتا ہوا وقت ہم سے چیخ چیخ کر تذکرہ کررہا ہے کہ اپنے راستے پر لوٹ آؤ اپنی منزل کی طرف دوبارہ چلنا شروع کرو، جوکہ ایک انتہائی مشکل ترین کام ہوچکا ہے ہم نے اپنی نسل کو ایک ایسا منشور تھما دیا ہے جس کا دور دور تک ہم تعلق نہیں ملتا ہمارے گلے میں طوق ڈالنے کا دشمن کا خواب کتنی آسانی سے پورا ہوا ہے یہ دشمن نے بھی نہیں سوچا ہوگا، وہ سب کچھ وقت سے پہلے ہورہا ہے جسے وقت درکار تھا۔
آج ہم ادب کی بات کر لیں تو ساتھ بیٹھے بچے پوچھتے ہیں کہ یہ کس بلا کا نام ہے۔ اسلام نے دنیا کو تہذیب سے روشناس کروایا ادب و آداب کی داغ بیل ڈالی بڑے چھوٹے کا احترام نافذ کرایا ایک منظم معاشرے کی داغ بیل ڈالی، آج یہ سب کچھ مسلمانوں نے برآمد کردیا اور بے ہنگم زندگیاں درآمد کرلیں ہم نے سکون بیچ دیا اور بیچنے کے درپے ہیں ہر فرد کی خواہش ہے کہ اس کا بچہ کسی ایسے ملک میں جاکر پڑھے یا کام کرے جہاں اسے اچھے پیسے ملیں جہاں اسے نظم و ضبط والی زندگیاں ملیں، کیا ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی بربادی کا سامان نہیں کر رہے۔
صبح سے شام تک بھی اگر آپ سماجی ابلاغ استعمال کرتے رہیں گے تو آپ کو پارسائی ہی پارسائی کا چرچا دکھائی دیتا رہے گا۔ لیکن عملی طور پر ہم لوگ بالکل مختلف ہو چکے ہیں ہم محبِ وطن بھی نہیں کہلوانا چاہتے اور ہمیں اپنے دین پر فخر کرنے سے بھی خوف آتا ہے کہ کہیں ہمیں انتہاء پسند یا شدت پسند نہ کہہ دیا جائے۔
حقیقت یہی ہے کہ ہمیں ہار اور جیت، کامیابی اور ناکامی کے درمیان کہیں بھٹکا دیا گیا ہے اور ہم بھٹکنے کو ہی اپنی جیت سمجھ کر پل پل جشن منائے جا رہے ہیں اور مزید بھٹکتے چلے جا رہے ہیں۔
تحریر: شیخ خالد زاہد