پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات طے پانے کے بعد ڈالر کی قیمت کو پر لگ گئے۔ چند روز سے اوپن مارکیٹ میں روپے کی بے قدری کا رحجان تھا، تاہم جمعرات کو انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر نے بڑی چھلانگ لگائی اور 4 فیصد مہنگا ہوکر 146.52 روپے کا ہوگیا۔
واضح رہے کہ بدھ (گزشتہ روز) کو انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 141.40 روپے تھی، تاہم (آج) جمعرات کو ٹریڈنگ کے دوران 5 روپے 12 پیسے اضافے کے بعد ملکی تاریخ نئی بلند ترین سطح 146.52 تک پہنچ گیا۔ ادھر اوپن مارکیٹ میں بھی ڈالر ڈھائی روپے مہنگا ہوا ہے۔ برطانوی پاؤنڈ، یورو اور سعودی ریال سمیت دیگر کرنسیوں کے ریٹ میں اتار چڑھاؤدیکھا گیا ہے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایکیپ) کے مطابق انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت خرید 145 اور قیمت فروخت 147 روپے دیکھی گئی۔ جبکہ بڑے اضافے کے بعد اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی فروخت مکمل بند ہوگئی۔ ڈالر کی نئی اڑان کے بعد پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 666 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا۔ روپیہ بے قدر ہونے سے پہلے پاکستان کے 105 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں اور واجبات کا حجم پاکستانی روپوں میں 14 ہزار 891 ارب روپے تھا، جو بڑھ کر 15 ہزار 558 ارب روپے ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں: روپے کی بے قدری۔ اسٹاک مارکیٹ منہ کے بل آن پڑی
ماہرین کے مطابق ڈالر کی قدر میں اضافہ اور روپے کی قدر میں جاری کمی کی وجہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان ہونے والا حالیہ معاہدہ ہے، جس کے بعد مارکیٹ میں غیر یقینی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ فوریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے ایک بیان میں ڈالر کی اونچی اُڑان کو افواہوں کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی بنیادی وجہ روپے کی قدر میں 15 سے 20 فیصد کمی کی افواہیں ہیں۔
ملک بوستان نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کو بے یار و مدد گار نہیں چھوڑنا چاہیے تھا، کیونکہ انٹربینک میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ہی ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے حکومت کی ساکھ بھی خراب ہوتی ہے، حکومت کو اسے حد میں رکھنا ہوگا۔
دوسری جانب اسٹیٹ بینک سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جمعرات کو انٹر بینک مارکیٹ میں شرح مبادلہ 146.52 روپے فی امریکی ڈالر پر بند ہوئی۔ گزشتہ روز بدھ کو شرح مبادلہ 141.40 روپے فی امریکی ڈالر تھی۔ اسٹیٹ بینک کے ترجمان اعلیٰ نے کہا کہ یہ تبدیلی زرمبادلہ مارکیٹ میں طلب و رسد کی صورت حال کو ظاہر کرتی ہے۔ اس سے مارکیٹ میں عدم توازن دور کرنے میں مدد ملے گی۔