الحمد اللہ پہلے رمضان کا مقدس ماہ اپنی رحمتیں نعمتیں نچھاور کرتا ہوا گزرا اور ساتھ ہی عید الفطر کی خوشیاں بھی خیر و عافیت منالی گئیں۔ عوام نے جیسے تیسے سب کچھ جھیل لیا ہے، سچ پوچھئے تو شور وہ لوگ مچاتے رہے ہیں جن کی جیبیں منہ تک بھری ہوئی ہیں اور یہ شور اس لئے کرتے ہیں کہ عوام ان کی جیبوں کی طرف نہ دیکھ لیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اپنے حلقوں کی کفالت شروع کردیں تو حکومت کے نا صرف کام آسان ہوجائیں گے بلکہ ان لوگوں کی دنیا اور آخرت میں کامیابی بھی یقینی ہو جائے گی۔ کیا عوام کو نہیں معلوم کہ پچھلی حکومتوں نے ملک خداد پاکستان کو کیسے چلایا ہے کس کس طرح سے لوٹ کھسوٹ کا مال جمع کیا ہے۔ کہیں ٹھیکوں کی مد میں اپنے کھاتے بھرے، کہیں پرسنٹیج رکھ دیا گیا اور کہیں اپنی کمپنیاں بنا کر انہی سے سارے کام کروالئے۔ ملک بظاہر اپنی صحیح حالت میں دکھائی دیتا رہا لیکن اندر ہی اندر سے کھوکھلا ہوتا چلا گیا مگر حکمرانوں کے نجی ادارے ترقی کرتے کرتے پاکستان سے باہر چلے گئے اور پاکستان کو کسی صاحب فراش کی طرح چھوڑ دیا گیا۔
پاکستانیوں کا مزاج بنا دیا گیا ہے کہ یہ ہر سیاسی معاملے میں عسکری اداروں کے عمل دخل پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں کیلئے درپردہ ان اداروں کو تنقید کا بھی نشانہ بناتے رہتے ہیں، اکثریت کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت وہاں تک شور کرے گی جہاں تک اسے منہ بند کرنے کیلئے نہیں کہا جاتا۔ دراصل اب تک جو کچھ اس ملک میں ہوتا رہا وہ سب مصنوعی تھا، کچھ بھی دائمی نہیں تھا۔ مصنوعی بالکل ایسے جیسے خواتین کا کسی تقریب میں شرکت کیلئے کیا جانے والا میک اپ، جو وقتی طور پر کچھ مختلف دکھائی دینے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ بہرحال اس کے ساتھ تاحیات نہیں رہا جاسکتا۔
پی ٹی آئی کے بانی موجودہ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے پاکستان میں انصاف کی بحالی کیلئے اپنی سیاسی جماعت کا نام تحریک انصاف رکھا۔ تحریک انصاف کا نام کسی کیمیائی عمل انگیز کی طرح آہستہ آہستہ کام کرتا چلا گیا۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان نا صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا میں اپنی سحرزدہ کرنے والی شخصیت کی بدولت جانے جاتے تھے اور ہیں۔ برطانیہ کی ایک امیر زادی سے آپ کی شادی بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تحریک انصاف نے بدعنوانی اور بے ایمانی کے خاتمے کا علم اٹھایا اور میدان عمل میں کود پڑی۔ مجروح سلطان پوری صاحب کا ایک بہت ہی مشہور قارئین کی نظر کرتا چلوں
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
ایک بات حتمی ہے کہ حق اور سچ کیلئے نکلنے والے تنہا ہی نکلتے ہیں لیکن وقت کیساتھ ساتھ کوئی غیبی طاقت اکیلے کو کارواں میں تبدیل کردیتی ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حق ہی رہنے کیلئے ہے۔ دائمی تحریک کیلئے یکسوئی کا فقدان ہے، ابھی تک حکومت وقت باہری تزئین و آرائش پر لگی ہوئی ہے۔ جبکہ سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہئے تھا، وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے اپنی جماعت کے منتخب نمائندوں کو عوام کے سامنے اپنی جیبیں خالی کرنے کا حکم دیں۔ ریاست مدینہ کا خواب اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک حکومتی اراکین عام آدمی کا طرز زندگی نہیں اپناتے۔ یہ وہ کام ہے جس کیلئے حقیقی معنوں میں عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ آج اور ابھی والے فلسفے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت ایسا کرنے کیلئے تیار ہوجائے تو باقی سب کو عوام خود ایسا کرنے پر مجبور کردیں گے۔ اب صرف ایک ہی راستہ ہے کہ حکومتی اراکین کو عملی طور پر اپنے معمولات زندگی کو تبدیل کرکے دکھانا چاہئے ورنہ سارا بھروسہ سارا اعتماد جاتا رہے گا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اقبال عظیم کا مشہور و معروف شعر وضاحت کردے گا؛
اپنی مٹی ہی پر چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
ہم انسانوں کی زندگیوں میں ایسا وقت بھی آتا ہے جب ہماری بصارت تو ہمیں سب کچھ دکھا رہی ہوتی ہے لیکن ہم بصیرت سے محروم ہوجاتے ہیں اور ایک ایسی اضطرابی کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں جو کسی کو خود سوزی پر مجبور کردیتی ہے تو کسی کو اندھیروں اور ویرانوں میں دھکیل دیتی ہے، لیکن کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی بصیرت کی واپسی کیلئے تگ و دو کرتے ہیں۔ اپنے خالق سے اپنی بصیرت طلب کرنے میں لگ جاتے ہیں اور بہت قلیل وقت میں ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا خالق بھرپور توانائی کے ساتھ بصیرت لوٹا دیتا ہے۔ یعنی اعتبار کرنا پڑتا ہے۔ حکومت وقت کی کیفیت بھی یقین پر کھڑی ہے اور قدرت کی جانب سے ہوجانے کی توقع عملی کارگردگی سے مشروط کر رکھی ہے۔ اب ہم سب دعا گو ہیں کہ بصارت سے بصیرت مل جائے اور پاکستان پر چھائے بے یقینی کی کیفیت سے نجات حاصل ہو۔
حکومت مخالف تحریک ابھی اپنے پیروں پر بھی نا کھڑی ہوسکی تھی کہ زرداری صاحب کی گرفتاری عمل میں آگئی، اس گرفتاری سے اور کچھ تو ابھی واضح نہیں ہوا ہے لیکن بلاول بھٹو زرداری صاحب کا لب و لہجہ کافی تبدیل ہوگیا ہے۔ دوسری طرف سے آنے والی آوازیں بھی معدوم ہوتی محسوس ہو رہی ہیں۔ کیونکہ یہ پہلی دفع ہوا کہ کسی کے گرفتار ہونے پر میٹھائیاں تقسیم کی گئیں ہیں ورنہ تو ہمیشہ ایسے لوگوں کی رہائی پر ہی یہ سب دیکھا جاتا تھا۔ حکومت مخالف تحریک کے غبارے سے پہلے ہی ہوا نکل چکی ہے کیونکہ اب پاکستان میں تبدیلی کی ہوائیں چل چکی ہیں۔
بہت سارے ایسے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جن سے یہ سمجھ لینا کافی ہے کہ راستہ مشکل ضرور ہے لیکن عزم اور حوصلہ اس راستے کو ہموار کر کے ہی دم لے گا۔ نہ تو اس بجٹ سے پہلے کوئی فرق پڑا ہے اور اللہ نے چاہا تو نہ بجٹ کے بعد کوئی فرق پڑنے والا ہے۔ یہ پاکستانی قوم اب فیصلہ کرچکی ہے کہ کچھ بھی ہوجائے پاکستان کو ان جونکوں سے نجات دلوا کر ہی دم لیں گے۔ اب قوم نے اپنی آنے والی نسلوں کیلئے شاید سوچنا شروع کردیا ہے۔ شاید عوام آج کی قربانی دے کر اپنے کل کو محفوظ بنانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اب قدرت کی جانب سے بصیرت طلب کی جارہی ہے کہ ہم بھی وہ وقت دیکھ سکیں جب پاکستان ریاست مدینہ کا عملی نمونہ بن کر ایک بار پھر دنیا میں اسلام کا حقیقی ترجمان بنے۔