آسٹریلیا کی لیبر پارٹی کے حامی انتخابات میں سیاسی جماعت کی غیر متوقع شکست کا صدمہ برداشت نہیں کر پائے۔ نسل پرستی، ماحولیاتی آلودگی اور مہنگائی سے تنگ ہزاروں افراد نے اب آسٹریلیا چھوڑ کر نیوزی لینڈ جانے کی تیاری کرلی ہے، جہاں پہنچنے کیلئے انہیں ویزا کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق آسٹریلیا میں انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد نیوزی لینڈ کی امیگریشن ویب سائٹ وزٹ کرنے والوں کی تعداد میں 10 گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ صرف ایک ہفتے کے دوران نیوزی لینڈ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے خواہشمند آسٹریلوی باشندوں کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔ ڈیلی میل کے مطابق الیکشن کے بعد اب تک 8500 آسٹریلوی شہریوں نے ’’نیوزی لینڈ ناؤ‘‘ ویب سائٹ دیکھی اور 512 نے خود کو رجسٹر کرایا۔ جبکہ اس سے قبل 12 مئی تک ویب سائٹ پر اپنے نام کا اندراج کرانے والوں کی تعداد محض 20 تھی۔
امیگریشن نیوزی لینڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ تعداد صرف ان آسٹریلوی باشندوں کی ہے، جنہوں نے نیوزی لینڈ میں بسنے کی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ تاہم یہ تعداد نیوزی لینڈ آنے والے آسٹریلوی باشندوں کی حتمی تعداد نہیں ہو سکتی۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر بھی آسٹریلوی باشندوں کی ’’گو ٹو نیوزی لینڈ‘‘ مہم جاری ہے، جہاں لیبر پارٹی کے حامی حکمراں اتحاد کے ووٹروں کو نسل پرست اور کند ذہن قرار دے رہے ہیں۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ نیوزی لینڈ ایک خوبصورت ملک ہے، جو نسل پرستی اور نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں کرتا۔
رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا میں انتخابات کے دوران مسلم تنظیم ’’دی اسلامک کونسل ؤف وکٹوریا‘‘ نے الیکشن لڑنے والی تقریباً سبھی جماعتوں کی جانب سے اسلام فوبیا پھیلانے پر تشویش ظاہر کی تھی۔ تاہم تنظیم کا کہنا تھا کہ لیبر پارٹی کسی حد تک مسلمانوں کیلئے نرم گوشتہ رکھتی ہے۔ جبکہ لیبر پارٹی نے بھی انتخابی مہم میں مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز واقعات کی روک تھام کا عزم ظاہر کیا تھا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق آسٹریلوی الیکشن میں اسکاٹ موریسن کی پارٹی اور ان کے اتحادیوں کی فتح حیران کن نتیجے کے طور پر دیکھی جارہی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں میں لیبر پارٹی 6 برس میں پہلی بار آگے نظر آرہی تھی۔ حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کی مقبولیت دیگر جماعتوں سے زیادہ تھی، اور بہت سے سیاسی پنڈٹ یہی پیشگوئی کررہے تھے کہ لیبر الیکشن جیت جائے گی، جو کہ بعد ازاں غلط ثابت ہوئیں۔