حضرت محمد ﷺ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ”الماثور“ ہے، جسے ”ماثور الفجر“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس تلوار مبارک کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ان دو تلواروں میں شامل ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وراثت میں ملی تھیں۔
روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم حضرت عبداللہ نے یہ تلوار آپ ﷺ کے نام وصیت کی تھی۔ نبی کریم ﷺ کے پاس یہ تلوار بعث نبوت سے بہت پہلے سے موجود تھی۔
جب آپ ﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو یہ تلوار آپ کے ساتھ رہی۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تلوار مع دیگر چند آلات حرب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرما دی تھی۔
”الماثور“ آج بھی ترکی کے میوزیم توپ کاپی میں محفوظ ہے۔ محمد حسن محمد التہامی (Tihami Al) کی کتاب ”سیوف الرسول وعدة حربہ“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامان حرب پر مستند ترین کتب میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔
التہامی لکھتے ہیں کہ یہ تلوار ایام نوجوانی سے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھی۔ ہجرت کے دوران بھی آپ ﷺ کے پاس رہی اور اس کے بعد اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہی۔
جب تک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منتقل نہیں ہوگئی۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا اسلحہ اور جانور حضرت علیؓ اور اہل بیت کو منتقل ہوئے تھے۔
التہامی کے بقول اس تلوار کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نبی کریم ﷺ کی پہلی تلوار تھی۔ یہ زمانہ اسلام سے ہونے والی جنگ فجار میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھی۔ قریش اور دوسرے قبائل کے درمیان حرب فجار نام کی چار جنگیں ہوئی ہیں۔
آخری جنگ کے وقت نبی کریم ﷺ کی عمر 20 برس تھی۔ حسن التہامی نے جس حرب فجار کا ذکر کیا ہے۔ اس وقت نبی کریم ﷺ کی عمر مبارک 14 برس تھی۔
حسن التہامی کہتے ہیں، تاریخ کی کتابوں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ تلوار مبارک (الماثور) نبی کریم ﷺ نے غزوات کے دوران کسی صحابی کو لڑنے کے لیے نہیں دی۔ جیسا کہ بدر، احد، خندق اور دیگر غزوات میں بعض دیگر آلات حرب کے معاملے میں ہوا تھا۔
نبی کریم ﷺ کی تلواروں پر تحقیق کے لیے حسن التہامی نے توپ کاپی میوزیم کا دورہ کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی تلواروں کے دستے اور نیامیں سونے سے بنانے کا حکم سلطان احمد اول (دور حکمرانی 1590 سے 1617 عیسوی) نے دیا تھا۔ سلطان کے حکم پر الماثور کی میان سونے سے بنائی گئی اور اس پر جواہرات جڑے گئے۔ اور پھر یہ مخملی کپڑے میں لپیٹ کر خالص چاندی سے بنے ایک اسٹینڈ پر رکھی گئی۔
حسن التہامی نے اپنی کتاب میں اس تلوار مبارک کا جو نقشہ کھینچا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس تلوار کا پھل (بلیڈ) دو دھاری ہے اور نوک گھونپنے کے لیے تیز ہے۔
دستے کے قریب پھل اور دستے کو الگ کرنے والا ایک حفاظتی ٹکڑا ہے۔ اس کے ساتھ سانپ کی شکل بنی ہوئی ہے۔ ایسی علامتیں عام طور پر قبل از اسلام میں استعمال ہوتی تھیں۔ جس کا مطلب ہوتا تھا کہ یہ تلوار انتہائی ہلاکت خیز ہے۔
اس کے (دستے کے عین) نیچے خط کوفی میں تحریر ہے ”عبداللہ بن عبدالمطلب“۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں دستہ اور نیام لکڑی سے بنے ہوئے تھے۔ وقت کے ساتھ جب انہیں نقصان پہنچا تو 16 ویں صدی عیسوی میں یہ دوبارہ بنائے گئے۔ تاہم تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تلوار کا پھل (بلیڈ) نبی کریم ﷺ کے زمانے کا ہی ہے۔
حسن التہامی نے یہ بھی لکھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی کی تقریب میں نبی کریم ﷺ نے یہ تلوار کمر سے باندھ کر شرکت کی تھی کہ بنو ہاشم کا یہی رواج تھا۔ دیگر بنو ہاشم بھی تقریب میں اسی انداز میں شریک ہوئے۔ حلمی ایدین کا بھی کہنا ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی کمر سے تلوار باندھا کرتے تھے۔
اس تلوار مبارک پیمائش کے حوالے سے تفصیلات یہ ہیں کہ اس کی نیام سمیت مکمل لمبائی 99 سینٹی میٹر۔ قبضہ (دستہ) 14 سینٹی میٹر۔ پھل (بلیڈ) کی لمبائی 81 سینٹی میٹر۔ دستے کی چوڑائی 4 سینٹی میٹر۔ نوک 3 اعشاریہ 5 سینٹی میٹر ہے۔
الماثور کے علاوہ جو تلوار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ورثے میں ملی۔ وہ ”الرسوب“ ہے۔ یہ پشت در پشت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان میں منتقل ہوتی آ رہی تھی۔ اس تلوار مبارک کی لمبائی 140 سینٹی میٹر ہے۔