خلیفہ بننے کے بعد حضرت علی المرتضیٰؓ کیلئے سب سے بڑا اور مقدم مسئلہ یہی تھا کہ حضرت عثمانؓ کے خلاف بغاوت کرنے والوں اور ان کا خون بہانے والوں سے قصاص لیا جائے، کیونکہ اس سے آنکھیں بند کر لینے سے احکام قرآن کی خلاف ورزی کے علاوہ خلافت، مملکت اور معاشرہ سبھی خطرے کی زد میں تھے۔
حضرت علیؓ دل سے چاہتے تھے کہ قاتلوں سے قصاص لیا جائے، انہوں نے اپنی طرف سے قاتلوں کا پتہ چلانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ وہ ایک بااصول، ضابطہ پسند اسلامی مملکت کے سربراہ تھے۔ ایک مطلق العنان آمر نہ تھے کہ اپنی مرضی سے پکڑ دھکڑ کر کے محض شبہ کی بنا پر لوگوں کو قصاص میں قتل کروا دیتے۔ وہ قانون شہادت کے پابند تھے۔
بدقسمتی سے کسی قاتل کی حتمی نشاندہی نہ ہو سکی اور نہ مطلوبہ عینی شہادتیں مل سکیں۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت ان کے پاس صرف ان کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہؓ موجود تھیں۔
وہ حملہ آوروں میں سے صرف محمد بن ابی بکرؓ کو پہچانتی تھیں، لیکن انہوں نے گواہی دی کہ محمد ابن ابی بکرؓ حضرت عثمانؓ کی زبان سے چند جملے سن کر شرمسار ہوئے اور واپس چلے گئے۔
بعد میں جن باغیوں نے حضرت عثمانؓ کو شہید کیا، حضرت نائلہؓ ان میں سے کسی کو پہچانتی نہ تھیں۔ قتل کا جرم کسی خاص شخص یا اشخاص کے خلاف ثابت نہ ہو سکا۔
حضرت علیؓ کسی کے خلاف قصاص کی کارروائی نہ کر سکے۔ اگر صحیح قاتلین کا پتہ چل بھی جاتا تو بھی حضرت علیؓ فوری طور پر قصاص لینے کی پوزیشن میں نہ تھے، کیونکہ قاتلین اور ان کے ساتھی مدینہ پر چھائے ہوئے تھے اور وہ لوگ آپ کی فوج میں شامل ہو گئے تھے۔ وہ سخت مزاحمت کرتے اور مدینہ میں پہلے سے بھی بڑا فتنہ و فساد شروع کر دیتے۔
شہر میں باغیوں کی بالادستی کی وجہ سے حضرت علیؓ کیلئے مکمل تحقیقات کرانا بھی ممکن نہ ہو سکا، چہ جائیکہ قصاص لینا۔
لوگ بار بار حضرت علیؓ کے پاس آتے اور قصاص پر زور دیتے۔ ان کا یہی جواب تھا کہ ”آپ لوگ جو کچھ کہتے ہیں، میں اس سے غافل نہیں۔ لیکن ایسی جماعت کے ساتھ کیا کروں، جس پر میرا قابو نہیں۔“
حضرت علیؓ کی خلافت کے ابتدائی ایام میں ان کی فوج باغیوں ہی پر مشتمل تھی۔ دوسرے مسلمان بہت کم تھے۔ اسی باغی گروہ میں قاتلین عثمانؓ بھی شامل تھے، ان سب نے حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا، انتقام اور قصاص کے مطالبے میں شدت اور پیچیدگی پیدا ہوتی گئی اور اس کی اصل جڑ سے کئی دوسری اور کڑی شاخیں پھوٹ نکلیں۔ ان کے قلع قمع کے لیے حضرت علیؓ نے خود باغی گروہ کا سہارا لیا اور وہ اپنی سلامتی کے لیے آپؓ کے مشیر اور دست و بازو بن گئے، جنگ جمل کے موقع پر صلح ہوتے ہوتے رہ گئی اور مسلمانوں کے باہمی خون خرابے کا آغاز ہو گیا۔
جنگ جمل سے پہلے حضرت علیؓ اس باغی سبائی گروہ سے بیزار تھے اور اسے بادل ناخواستہ برداشت کر رہے تھے اور اس پر گرفت کیلئے موقع کے منتظر تھے۔ لیکن جنگ جمل کے بعد انہوں نے حالات کی مجبوری سے قاتلین عثمانؓ کے بارے میں اپنا رویہ بدل دیا اور انہیں اپنا لیا۔
اگر حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت معاویہؓ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ نے آپؓ سے تعاون کیا ہوتا تو قصاص کا مسئلہ حل ہو سکتا تھا اور دوسرے مسائل پیدا ہی نہ ہوتے۔ حضرت معاویہؓ نے قصاص عثمانؓ کو اپنی بیعت کی شرط قرار دیا۔ پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ نے انہیں شام کی گورنری سے معزول کر دیا ہے تو قصاص کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا، بیعت سے انکار کر دیا اور نئے گورنر کو چارج نہیں دیا۔
حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی قصاص کا مطالبہ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور معاملہ سلجھنے کے بجائے الجھتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان کی نوبت آئی اور مسلمان اپنے ہی خون میں نہا گئے۔
لشکر علیؓ میں شامل 20 ہزار باغیوں نے بیک زبان ہو کر کہا کہ ہم سب عثمانؓ کے قاتل ہیں۔ حضرت علیؓ کیلئے 20 ہزار افراد کی گردن مارنا ممکن نہ تھا۔ انہی باغیوں کی سازش سے حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عائشہؓ میں صلح ہوتے ہوتے رہ گئی اور جنگ جمل پیش آئی اور پھر جنگوں اور دوسرے واقعات کا سلسلہ چلتا گیا، جو بالآخر حضرت علیؓ کی اپنی شہادت پر منتج ہوا۔