آیت الکرسی قرآن مجید کی وہ آیت ہے جس کے بارے میں حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ حضوراکرمؐ نے فرمایا: جس شخص نے ہر نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھی، اسے جنت میں جانے سے کوئی شے نہیں روک سکتی۔ اور جس نے رات سوتے وقت آیت الکرسی پڑھی تو اللہ تعالیٰ اسے، اس کے گھر اور ہمسایوں کو تمام رات حفاظت میں رکھتا ہے۔
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ - لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌؕ-ل َهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ- مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ- یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْۚ-وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَۚ-وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ-وَ لَا یَـُٔوْدُهٗ حِفْظُهُمَاۚ- وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ (۲۵۵)
ترجمہ:
اللہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہمشہ زندہ خود قائم، قائم رکھنے والا ہے، اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کے ہاں اس کی اجازت کے بغیرسفارش کرے۔ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے ہیں، سوائے اس کے جو وہ چاہے۔ اس کی کرسی (علم) آسمانوں اور زمینوں پر حاوی ہے اور ان دونوں کی حفاظت اس پر بوجھ نہیں اور وہ بہت بلند عظمت والا ہے۔
کرسی کا لفظ عام طور پر اس شے کیلئے بولا جاتا ہے جس پر بیٹھا جائے۔ مگر ابن عباس نے یہاں کرسی کے معنی علم کے لئے ہیں۔
ابن جریر کہتے ہیں کہ کرسی کا اصل مفہوم علم ہی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اٹھنے بیٹھنے سے پاک ہے۔ چونکہ آیت کے باقی معنوں میں بھی علم ہی کا ذکر ہے۔ اس لئے گمان ہے کہ کرسی سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ کا وسیع علم ہے، جو آسمانوں اور زمینوں پر حاوی ہے۔
آیت الکرسی کو حضور اقدسؐ کی احادیث مبارکہ میں قرآن پاک کی سب سے عظیم آیت فرمایا گیا ہے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسالت مآبؐ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص ہر فرض نماز کے بعدآیت الکرسی کی تلاوت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو دوسری نماز تک اپنی حفاظت میں رکھتا ہے اور آیت الکرسی کی حفاظت صرف نبی، صدیق یا شہید ہی کرتا ہے۔ (شعب الایمان)
یہ آیت مبارکہ اللہ کی ذات اور صفات کے بیان میں ایک جامع آیت ہے۔ ارشاد فرمایا کہ اللہ کے سوا کوئی ذات عبادت اور بندگی کی مستحق نہیں ہے۔ اللہ، باری تعالیٰ کا اسم ذاتی ہے، اور یہ لفظ ان تمام صفات کا جامع ہے جو متعدد صفاتی اسماء حسنیٰ میں الگ الگ پائی جاتی ہیں، وہ ”حیی“ ہے۔
وہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ ہمیشہ رہے گا، موت اور فنا کے نقص سے بالکل پاک ہے، وہ قیوم ہے، جو ازخود قائم ہے، اور دوسروں کو قائم کرنے والا ہے، وہ ہستی ہے جو کائنات کی ہر چیز کی تخلیق، نشوونما اوربقاء کی تدبیر فرمانے والی ہے، اوراس کی قیومیت کا تعلق کائنات کی ہر ایک چیز سے ایک ہی طرح کا ہے۔
وہ اونگھتا نہیں کہ کسی بھی وقت اس کی قیومیت کا تعلق کمزور ہو جائے وہ سوتا بھی نہیں کہ یہ تعلق بالکل ہی منقطع ہو جائے زمین وآسمان میں جو کچھ بھی ہے، وہ اسی کا ہے اور سب کا خالق، مربی، مالک اور معبود وہی ہے، پھر کون ہے جو اس کی ہمسری کا دعویٰ کرسکے اور کون ہے جو قیامت کے دن اس کی بارگاہ میں کسی کی سفارش کرسکے، الاوہ خوش بخت، جس پر اللہ کی عبادت، بندگی، عاجزی ،انکساری اورعلم و معرفت کی وجہ سے اللہ کا فضل ہوجائے۔
اللہ اسے اپنے کرم سے عزت عطا فرمائے اور وہ اس کے دربار میں سفارش اور لب کشائی کا شرف حاصل کرلے، اللہ رب العزت کا علم کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے، اور کسی میں یہ طاقت نہیں کہ اس کے علم میں سے کچھ بھی حصہ اس کی اجازت کے بغیر حاصل کرسکے، اس کے علم اور اس کی حکومت کی کرسی نے تمام کائنات کو گھیر رکھا ہے اور ہر چھوٹی، بڑی، ظاہر اور پوشیدہ چیز اس کے سامنے عیاں ہے، اور وہی سب سے بلند اور ہر عظمت کا حامل ہے۔