حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب عمر میں حضرت محمدؐ سے صرف دو سال بڑے تھے۔ آپ کی والدہ ہالہ بنت وہب تھیں، جو حضورؐ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہؓ کی چچا زاد بہن تھیں۔ حضرت حمزہؓ رسول اکرمؐ کے رضاعی بھائی تھے۔
آپؓ کی طبعیت مہم جو اور خطر آزما تھی۔ آپؓ کے والد حضرت عبدالمطلبؓ کا انتقال ہوا تو آپ کی عمر صرف دس سال تھی۔ اس لئے آپ کی تعلیم و تربیت ننھیال میں ہوئی۔
عرب میں اس وقت شاعری اور انساب کا علم ہی تعلیم کے زمرے میں آتا تھا۔ جنگی مہارت، گھڑ سواری اور شکار وغیرہ معزز فنون میں شامل تھے۔ شائد اسی لئے حضرت حمزہؓ کو شعر و شاعری سے لگاؤ تھا۔
آپؓ بہت دلیر جنگجو تھے۔ اکثر جنگوں میں جا کر گھڑ سواری، نیزہ بازی، شمشیر زنی اور تیر اندازی کی مشق کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ شکار سے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں ایک عورت ملی، جس نے بتایا کہ ابو جہل نے حضورؐ کے خلاف مغلظات بکی ہیں۔
یہ سُن کر آپؓ کا خون کھولنے لگا اور جوش میں آکر سیدھے ابو جہل کے پاس پہنچے اور کہنے لگے: ’’کیا تو سمجھتا ہے کہ محمد بن عبداللہ بے سہارا ہی؟ کیا تو نے سمجھ لیا ہے کہ بنو ہاشم سارے کے سارے مر گئے ہیں؟‘‘
ابو جہل کے ساتھی یہ سنتے ہی بھڑک اٹھے، لیکن ابو جہل نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کرا دیا کہ ’’اسے کچھ نہ کہو، کیونکہ میں نے بھی آج اس کے بھتیجے کو گالیاں دی تھیں۔‘‘
حضرت حمزہؓ اس کے بعد سیدھے حضورؐ کے پاس پہنچے اور اُن کو سارا واقعہ بیان کیا۔ حضورؐ نے آپ سے تمام واقعہ سن کر کہا کہ ’’چچا جان میں اس وقت زیادہ خوش ہوں گا جب آپ اس دین میں داخل ہو جائیں گے، جس کو لے کر میں آیا ہوں۔‘‘
آپؐ کے ان الفاظ میں کچھ ایسی تاثیر تھی کہ حضرت حمزہؓ مسلمان ہوگئے، ہجرت کے وقت آپؓ بھی مکہ سے مدینہ آگئے۔ حضورؐ نے مدینہ میں حضرت حمزہؓ اور اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ میں بھائی چارہ کرادیا۔
ہجرت کے فوراً بعد حضور اکرمؐ نے صحابہؓ کی ایک جماعت کو کفار کے مقابلے کیلئے بھیجا۔ میدان جنگ میں کفار اور مسلمان باقاعدہ صف بندی کر چکے تھے کہ اسی دوران قبیلہ بنو جہیفہ کے سردار ابن عمرو نے دونوں فریقین میں بیچ بچاؤ کرادیا۔ اس مہم میں اسلامی تاریخ میں پہلی بار جسے عَلم دیا گیا وہ آپ ہی تھے۔
۲ ہجری میں غزوۂ بدر کے آغاز میں جب قریش کا سردار عتبہ، اس کا بھائی شیبہ اور بیٹا ولید میدان میں نکلے تو حضرت محمدؐ نے ان کے مقابلے کیلئے چند انصاری صحابہؓ کو بھیجا، لیکن عتبہ کہنے لگا کہ ہم صرف قریش لوگوں سے ہی مقابلہ کریں گے۔
اس پر آپؐ نے حضرت حمزہؓ، ابو عبیدہؓ اور حضرت علی بن ابی طالبؓ کو مقابلہ پر بھیجا۔ حضرت حمزہؓ نے پہلے ہی وار میں عتبہ کا سر تن سے جدا کر دیا۔ آپؓ غزوۂ بدر میں بے جگری سے لڑے۔
۳ھ میں غزوۂ اُحد میں بھی آپؓ نے کفار کے کتنے ہی لوگوں کو تہہ و تیغ کردیا۔ آپ کی شمشیرِ بے نیام دشمنوں کا صفایا کر ہی رہی تھی کہ ایک نیزہ آپ کے آکر لگا اور جگر کے پار ہوگیا۔
جس نیزے سے سے آپؓ شہید ہوئے وہ ایک حبشی غلام نے آپ پر پھینکا تھا جسے قریش کے سرداروں نے آزادی کا لالچ دے کر کسی جگہ حضرت حمزہؓ کی تاک میں بٹھا رکھا تھا۔
جب آپؓ شہید ہوگئے تو ابو سفیان کی بیوی نہدہ نے آپ کے جگر ٹکڑے کئے اور انہیں چبا کر تھوک دیا۔ بعد میں ناک، کان کاٹ کر ہار بنایا اور گلے میں ڈال دیا۔
جب حضورؐ نے اپنے محبوب چچا کی لاش دیکھی تو آنکھیں بھر آئیں اور آپؐ نے فرمایا:
’’تم پر خدا کی رحمت ہو، تم رشتہ داروں کے حقوق کا بہت خیال رکھتے تھے، اور نیک کاموں میں سب سے آگے رہتے تھے۔ اگر مجھے صفیہ کے رنج و غم کا خیال نہ ہوتا تو میں تمہیں اس طرح چھوڑ دیتا کہ درندے اور پرندے تمہیں کھا جائیں اور قیامت کے دن تم ان کے پیٹ سے اٹھائے جاؤ، خدا کی قسم مجھ پر تمہارا انتقام واجب ہے، میں تمہارے عوض ستر کافروں کا مثلہ کروں گا۔‘‘
بعد میں وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس بدلے سے ممانعت کردی اور آپؐ نے کفارہ ادا کرکے قسم توڑ دی۔ ادھر حبشی غلام نے حضرت حمزہؓ کو شہید کرنے کے بعد آزادی تو حاصل کرلی تھی، لیکن بعد میں اسے ندامت ہوئی۔
حبشی غلام نے کچھ عرصے بعد اسلام قبول کرلیا۔ جب وہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے اُسے اپنے سامنے آنے سے منع فرما دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐ کو اپنے عزیز چچا سے محروم ہونے کا کتنا رنج تھا۔