پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کی نام لیوا اور جمہوری اصولوں کی علم بردار ہیں مگر عملاً ان میں کسی ایک کا بھی ان اصولوں سے دور کا واسطہ نہیں، یہ سب جمہوریت کے نعرے تو بلند کرتی ہیں مگر اپنی جماعتوں میں جمہوریت کو جگہ دینے کے لیے تیار نہیں،بڑی سیاسی و مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو سب میں یہ قدر بہر حال مشترک نظر آتی ہے کہ یہ اپنی جماعتوں کے اندر صاف اور شفاف انتخاب نہیں کراتی ، سب جماعتیں ہی خاندانی قیادت کی شکار ہیں جو نسل در نسل وراثت میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ صرف 26اگست 1941ءکو وجود میں آنے والی جماعت اسلامی کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ جس کے اندرونی انتخابات، اس کے قیام کے اول روز سے آج تک مقررہ آئینی وقفوں کے ساتھ باقاعدگی سے ہوتے چلے آرہے ہیں، حالات خواہ کیسے ہوں ان میں تعطل کا سوال آج تک پیدا نہیں ہوا۔جماعت اسلامی کے بانی امیر سے چھٹے امیر تک کی شخصیات کا جائزہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی سرمایا دار، جاگیردار یا وڈیرہ نہیں ہے نہ ہی اشرافیہ کی غلامی کا داغ ان میں سے کسی کی پیشانی پر نظرآتا ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک کی دوسرے سے کوئی رشتہ داری ہے۔
سیاسی جماعتوں نے اگر خود کو نسلی لسانی اور ذات برادریوں کی سیاست میں الجھا رکھا ہے تو مذہبی ہونے کی دعویدار جماعتوں میں سے بھی ہر ایک نے خود کو کسی نہ کسی فرقے اور مسلک سے منسلک کر رکھا ہے صرف جماعت اسلامی ہے جو ہر طرح کی فرقہ بندیوں، نسلی و لسانی، علاقائی اور ذات برادری کے تعصبات سے پاک اور عالمگیر اتحاد امت کی علم بردار ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم کو اتحاد، تنظیم اور ایمان کے اصولوں پر کاربند رہنے کا درس دیا تھا مگر افسوس کہ آج قوم ان اصولوں کو مکمل طور پر فراموش کر چکی ہے مگر جماعت اسلامی آج بھی قائد کے ان اصولوں کا دامن مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے، کارکنوں کی تنظیم و تربیت اور کردار سازی جماعت کا خاصا ہے جس پر بہت محنت اور خصوصی توجہ مرکوز کی جاتی ہے جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنان امانت و دیانت، شرافت و صداقت اور خدمت کی روایات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے جماعت اسلامی کے جو لوگ اہم مناصب پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ان میں سے کسی کے دامن پر بددیانتی اور کرپشن کا کوئی داغ آج تک جماعت کے مخالف بھی نہیں لگا سکے۔ ملک و قوم اور خود جماعت کی قیادت اور کارکنوں پر بے انتہا مشکل مراحل بھی آئے، تکلیفیں بھی آئیں اور پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر جماعت کی قیادت نے کبھی مایوسی کو قریب نہیں پھٹکنے دیا اور نہایت خندہ پیشانی سے ان مشکل مراحل اور دشوار گزار گھاٹیوں سے گزر گئے۔
جماعت اسلامی نے گزشتہ دنوں اپنی تاریخ کا ایک اور ورق الٹا ہے اور دستور جماعت کے مطابق3 اپریل کو امیر جماعت کا 19واں انتخاب پرامن اور شفاف طریقے سے اپنے اختتام کو پہنچا ۔حافظ نعیم الرحمن آئندہ 5 سال کے لیے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوگئے ۔ وہ جماعت اسلامی کے چھٹے امیر ہوں گے جن کی مدت امارت اپریل 2029ءتک ہوگی۔ جماعت اسلامی کے دستور کی دفعہ 13کے تحت کوئی بھی شخص جماعت اسلامی کی امارت کے لیے امیدوار نہیں ہوتا، البتہ اراکین کی رہنمائی کے لیے گزشتہ عرصے سے مجلس شوریٰ 3 نام تجویز کرتی ہے، تاہم اراکین جماعت ان 3 ناموں کے علاوہ کسی بھی شخص کا امارت کے لیے نام تجویز کر سکتے ہیں۔ موجودہ انتخاب کے لیے مجلس شوریٰ نے حروف تہجی کے اعتبار سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق،قائم مقام امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ اور امیر کراچی حافظ نعیم الرحمن کے نام تجویز کیے تھے۔ جماعت اسلامی کے امیر کے انتخاب کے لیے انتخابی عمل (بیلٹ پیپرز کی اشاعت،ترسیل، ووٹنگ عمل، بیلٹ پیپرز کی واپسی) کا عمل 19فروری کو شروع ہوا جو 25مارچ کو اختتام کو پہنچا جس کے بعدمنصورہ میں انتخابی کمیشن کی زیرنگرانی ووٹوں کی گنتی ہوئی جو 4 اپریل کی صبح تک مکمل ہو گئی جس کے فوری بعد اسی روز نو منتخب امیر جماعت کا اعلان کیا گیا۔ جماعت اسلامی کے ملک بھر میں 45ہزار رکن ہیں جن میں 6ہزار سے زائد خواتین اراکین شامل ہیں۔ اراکین جماعت ہر 5 سال بعد خفیہ رائے شماری کے ذریعے براہ راست امیر جماعت کے انتخاب میں حصہ لیتے ہیں۔ 82فیصد اراکین جماعت نے امیر جماعت کے الیکشن میں حصہ لیا جن میں اکثریت نے حافظ نعیم الرحمن کے حق میں ووٹ دیا۔جماعت اسلامی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جس میںباقاعدگی سے امیر جماعت کے الیکشن ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے بانی امیر سیدمودودی تھے تاہم انہوں نے بھی یہ گوارا نہیں کہا تھا کہ 5 سال بعد الیکشن کے بغیر ان کو دوبارہ امارت کے عہدے پر مامور کیا جائے۔ سید مودودی کے بعد میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسین اور سراج الحق امیر جماعت کے عہدے پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔
حافظ نعیم الرحمن 1972ءمیںصوبہ سندھ کے شہر حیدرآبادمیں ایک متوسط طبقے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کا آبائی تعلق علیگڑھ سے تھا۔ وہ نارتھ ناظم آباد کراچی میں کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ انھوں نے جامع مسجد دارالعلوم، لطیف آباد کراچی یونٹ 10 سے حفظ کیا۔ ابتدا ئی تعلیم نور الاسلام پرائمری اسکول، حیدرآباد سے حاصل کی اور میٹرک علامہ اقبال ہائی اسکول سے کیا۔ میٹرک کے بعد حافظ نعیم الرحمن کی فیملی حیدرآباد سے کراچی منتقل ہوگئی۔ انہوں نے پاکستان شپ اونرز کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ انہوں نے ملک کی معروف درس گاہ این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامک ہسٹری میں ایم اے کیا۔زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور ایک فعال اور متحرک طالب علم رہنما کے طور پر اپنی شناخت منوانے میں کامیاب ہوئے۔ طلبہ حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر وہ گرفتار بھی ہوئے اور مختلف مواقع پر 3 بار جیل کاٹی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کراچی اور پھر صوبہ سندھ جمعیت کے ناظم بھی رہے۔ انہیں 1998ءمیں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ یعنی مرکزی صدر منتخب کیا گیا۔ حافظ نعیم الرحمن 2 سال اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ سے فراغت کے بعد انہوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور عملی سیاست میں قدم رکھا۔ سن 2001 ءکے شہری حکومتوں کے انتخابات میں انہوں نے ضلع وسطی کراچی کی ایک یونین کونسل سے نائب ناظم کا الیکشن لڑے اور کامیاب ہوئے۔ حافظ نعیم الرحمن لیاقت آباد زون کے امیر جماعت اسلامی، ضلع وسطی کے نائب امیر، کراچی جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری اور نائب امیر بھی رہے۔ سن 2013ءمیں انہیں پہلی مرتبہ جماعت اسلامی کراچی کا امیر منتخب کیا گیا۔8 فروری 2024ءکے عام انتخابات میں حافظ نعیم الرحمن نے الیکشن کمیشن کے مطابق اعلان شدہ جیتی ہوئی سیٹ یہ کہہ کر چھوڑ دی کہ وہ مخالف امیدوار سے ایک ہزار ووٹ سے ہارے ہیں اس لیے ان کا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ وہ یہ سیٹ قبول کریں۔ حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی کراچی کے امیر کے ساتھ ساتھ ”الخدمت ویلفیئر سوسائٹی کراچی” کے صدر بھی ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں کے لیے فری آئی ٹی پروگرام ”بنو قابل” لانچ کیا جو اپنی نوعیت کا انقلابی پروگرام ثابت ہوا۔ حافظ نعیم الرحمن پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور ایک نجی کمپنی سے منسلک ہیں۔ ان کی کمپنی کو اعلی کوالٹی کی خدمات کے پیش نظر ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کو کھیلوں میں کرکٹ پسند ہے وہ شعر و ادب میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ان کی علامہ اقبال کے اردو اور فارسی کلام پہ گہری نظر ہے۔ وہ حافظ قرآن ہیں، اردو ، انگریزی اور سندھی پرزبان پر عبور رکھتے ہیں۔ مسحور کن قرآت اور دلگداز نعت خوانی ان کا پوشیدہ وصف ہے۔وہ چین، ترکی، متحدہ عرب امارات، بنگلا دیش،برطانیہ، جاپان، قطر اور سعودی عرب سمیت مختلف ممالک کے دورے بھی کر چکے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی کے چھٹے امیر ہیں ان سے قبل جماعت کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق جماعت کے امیر رہ چکے ہیں ان سب میں سے کوئی بھی سرمایا دار، جاگیر دار یا وڈیرہ نہیں تھا، انہی کی طرح حافظ نعیم الرحمن بھی نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت کراچی کے بلدیاتی، صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی تحریک میں نئی جان ڈالی ہے۔ بطور امیر جماعت کراچی انہوں نے خدمت خلق کے میدان میں جماعت اسلامی کو عوام کی خدمت گار اور مسائل کے حل کی صلاحیتوں سے مالا مال جماعت کے طور پر متعارف کرایا ہے اس حیثیت میں انہوں نے کراچی کی سطح پر بہت سے نئے منصوبوں کا آغاز بھی کیا۔ اب جماعت اسلامی کے ارکان نے ملک بھر کی قیادت کی ذمہ داری ان کے سپرد کی ہے تو امید کی جانا چاہئے کہ جماعت ان کی قیادت میں ملک و قوم کی خدمت اور رہنمائی کے نئے سنگ میل عبور کرے گی۔ ان شاءاللہ۔