تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

گریٹر اسرائیل قیام کامنصوبہ

Greater Israel qayam ka mansooba
  • rahilarehman
  • اکتوبر 7, 2024
  • 12:48 شام

اسرائیل نے خوفناک ڈیجیٹل دہشت گردی متعارف کروا دی

عالمی دہشت گرد اسرائیل نے انبیائے کرام کی سرزمین فلسطین کو تباہ اور برباد کرنے کے بعد دریائے فرات سے بحر احمر تک گریٹر اسرائیل کا قیام کے منصوبے کے تحت مشرقی وسطیٰ میں اپنی ریاستی دہشت گردی کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے لبنان اور شام پر جنگ مسلط کردی ہے ،اسرائیل کے دانشوروں نے چند سو برس قبل دنیا پر قبضہ کرنے کا باقاعدہ روڈ میپ بنایا، اس کی تحریری دستاویزات 1897ءمیں ایک خفیہ ایجنٹ کے ذریعے دنیا کے سامنے آئیں اور اسرائیل کے قیام سے لیکر آج تک معاملات منصوبے کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسرائیل نے گزشتہ مہینے ستمبر میںلبنان کے مختلف شہروں میںپیجرز ، واکی ٹاکی، اسمارٹ فونز ، لیپ ٹاپ، ریڈیو ڈیوائسز اور سولر پینلز میں نصب بارودی مواد کے ذریعے سے کئے گئے دھماکوں کے نتیجے میں 32افراد شہید اور 3250افراد زخمی ہوئے تھے اس خوفناک ڈیجیٹل دہشت گردی کے بعداسرائیل نے لبنان کے جنوب میں واقع بیروت کے قریبی علاقے الضاحیہ کے سو سے زائد مقامات پر920 کلو گرام وزنی امریکی ساختہ ایم کے ۔84 بموں کی بارش برسائی جس کے نتیجے میں 8 شہری شہید اور 60 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔اسرائیل نے لبنان کے ساتھ شام کے علاقوں پر بھی فضائی حملہ کیا ہے۔

اسرائیل کی لبنان اور شام پر بمباری کے نتیجے میںہزاروں مرد، خواتین اور بچے شہید جبکہ ہزاروں کی تعداد میں ہی زخمی ہو چکے ہیں۔غزہ میں انسانیت سوز مظالم اور دہشت گردی کے عین بیچ دو ہمسایہ ملکوں کی سرزمین پر حملوں میں دو اہم لیڈروں اسماعیل ہنیہ اور ایرانی صدر کو قتل کر کے اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں پہلے ہی ایک نئی جنگ کو دعوت دے چکا ہے۔مشرقی وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ وسیع ہونا دریائے فرات سے بحر احمر تک گریٹر اسرائیل قائم کرنے کے درینہ منصوبے کا حصہ ہے۔اسرائیل کے نقشے میں اُردن اور لبنان مکمل جبکہ شام ، عراق ،سعودی عرب اور مصر کا ایک بڑا حصہ شامل ہے۔جنگ کی ٹیکنالوجی جو سینکڑوں برس قبل تیر تلوار ڈھال وغیرہ پر مشتمل تھی، مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی اب ڈیجیٹل دہشت گردی کے دور میں داخل ہوچکی ہے اور اسرائیل تحقیق، ٹیکنالوجی اور مسلسل کاوشوں کے ذریعے نہ صرف انہیں لبنان میں استعمال کرچکا بلکہ اس سے آگے کے مراحل پر دسترس کا دعویدار بھی ہے۔

اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف ایک سال سے جاری بدترین جارحیت کا دائرہ پڑوسی ملک لبنان تک بڑھادیا ہے اور بین الاقوامی مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی توسیع پسندی سے جنم لینے والی کشیدگی تباہ کن عالمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔لبنان پر فضائی حملہ شروع کرنے سے قبل اسرائیل نے پیجر اور واکی ٹاکی کے ذریعے دھماکے کرکے ہزاروں افراد کو زخمی اور سیکڑوں کو شہید کرنے کا مظاہرہ کیا ہے اور متکبرانہ انداز میں اعلان کیا ہے کہ اس کے پاس اس سے بھی زیادہ تیکنیکی صلاحیت موجود ہے،اسرائیل نے مواصلاتی نظام اور مواصلاتی ٹیکنالوجی خفیہ طور پر استعمال کی ہے اس کے باوجود امریکا اور مغربی دنیا کا ردعمل سب کے سامنے ہے۔ اسرائیل کا یہ عمل ہر لحاظ سے دہشت گردی ہے۔عالمی و بین الاقوامی قوانین کی رو سے یہ دہشت گردی جنگی جرائم کے زمرے میں بھی آتی ہے۔ دہشت گردی کے جرم میں اسرائیل کی حکومت، اس کی فوج، اس کی خفیہ ایجنسی موساد ملوث ہیں۔ یہ ساری ٹیکنالوجی امریکا، یورپ اور دیگر طاقتور ممالک نے اسرائیل کو مہیا کی ہے دنیا کی ساری اعلیٰ ترین جنگی ٹیکنالوجی تک اسرائیل کو رسائی حاصل ہے اس کے باوجود اسرائیل کو نہ اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے نہ ہی دہشت گرد تنظیموں، ممالک اور حکومت کی نام نہاد امریکی فہرست میں شامل ہے۔ لبنان پر بم باری کی توسیع سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کو کوئی خوف نہیں ہے کہ کوئی طاقت اس کو روکے گی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تو مسلسل اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کا مرثیہ پڑھاتھا۔غزہ کی پٹی میں مظلوم فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی کے بعد لبنان اور شام میں اسرائیل کے تمام اقدامات جنگی جرائم اور ریاستی دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں، لیکن اب یہ بات دنیا پر عیاں ہو گئی ہے کہ اقوام متحدہ کا قیام دنیا کو جنگ کی ہلاکت و تباہ کاری سے بچانے کے لیے نہیں کیا گیا تھا بلکہ دو عظیم جنگوں کے بعد قائم ہونے والے عالمی سیاسی نظام پر گرفت کے لیے تھا مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی نسل پرستانہ ریاست کا قیام بھی امریکا اور یورپی ملکوں کی تزویراتی مصلحتوں کے حصول کے لیے کیا گیا۔ اسرائیل کے قیام و استحکام میں امریکی و یورپی ممالک کی طاقتوں کا استعمال ہی اسرائیل کی اصل طاقت ہے۔ تمام مسلم ملکوں کی جانب سے اسرائیل سے لڑنے سے انکار کی بھی وجہ امریکا کی طاقت کا خوف اور سامراجی غلامی کو قبول کرنے کا شاخسانہ ہے۔

اسرائیل مخالف تنظمیوں آئی آر ایس اور آئی آر آئی( مزاحمت اسلامی فی العراق)کے ٹھکانوں پر شام اور عراق میں بمباری کرنے کیساتھ ساتھ اسرائیل نے لبنان اپنی بمباری اور حملوں میں حزب اللہ کے خلاف شدت بڑھاتے ہوئے لبنان کے عوام کی مشکلات اور مصائب میں بہت اضافہ کردیا ہے۔ درحقیقت اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو حزب اللہ کی آڑ میں ایسے حالات پیدا کرنے کی حکمت عملی پرکار بند ہیں کہ لبنان بے بس ہوکر اسرائیل کے ساتھ نئے سرحدی معاہدے پر مجبور ہوجائے، تاکہ سرحد پر اسرائیل اپنی مرضی کا بندوبست ممکن بنا لے۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان سرحدی کشیدگی تو پچھلے برس آٹھ اکتوبر سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ اسرائیل اگر چاہتا ہے کہ اس کے وہ شہری واپس اپنے گھروں کو چلے جائیں جنھیں حزب اللہ کی راکٹ بازی کی وجہ سے شمالی اسرائیل سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے تو اسرائیل کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا ڈول ڈالے رہے اور دوسرا لبنان کے جنوب کی طرف زمینی مداخلت کرتا رہے۔

دراصل نیتن یاہو یا تو بات چیت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا مذاکرات سے پہلے زمینی حقیقت کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایسے ماحول میں چل رہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلنٹ بین الاقوامی عدالت انصاف میں مطلوب کے درجے پر رکھا گیا۔یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی اسرائیل کے پاس شطرنج کی بساط کو بنیادی طور پر دوبارہ ترتیب دینے کا موقع ملا ہے۔ دوسری جانب جیسا کہ ابھی پچھلے ہی ہفتے، امریکی حکام نے نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے اسرائیل کا سفر کیا اور انھیں ایک حد سے بڑھتے ہوئے فیصلے کرنے سے روکا ہے، مگر انھی دنوں میں کچھ دن بعد اسرائیل نے ہزاروں لبنانیوں کے پیجرز اور واکی ٹاکیزکو دھماکے سے اڑا کر حزب اللہ کے مواصلاتی نیٹ ورک پر حملہ کیا ہے۔ امریکا ابھی تک یہ پوزیشن لیے ہوئے ہے کہ اس کا ان پیجر اور واکی ٹاکی حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پینٹاگان نے کہا ہے کہ اسرائیل کسی وسیع پیمانے پر جنگ کی تیاری نہیں کر رہا ہے۔ نیتن یاہو کی حکمت عملی کا اندازہ کرنے کے لیے دو چیزوں کے امکان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ پر اتنا اندرونی دباو ¿ بڑھا دیا جائے کہ وہ بے بس ہو جائے۔

نیز یہ کہ اسے نئے سرے سے سرحدی بندوبست کے معاہدے کے لیے رکاوٹ نہ رہے۔ اس سلسلے میں آخری معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کے تحت جولائی 2006 کی جنگ کے بعد ہوا تھا۔ تاہم کسی بھی طرف سے اسے مکمل طور پر نافذ نہیں کیا گیا اور حزب اللہ لبنانی شہریوں کو ہر طرح سے قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے کی اجازت پر یکے بعد دیگرے حکومتی پالیسی بیانات کے تحت اپنے ہتھیاروں پر کنٹرول رکھنے میں کامیاب رہی۔ اسرائیل اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ زمینی حدود سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ نیتن یاہو کا اصل مقصد جنوب میں دریائے لطانی تک ”نو مین لینڈ“ بنانا ہے۔اس طرح اسرائیل کی حزب اللہ پر بمباری کی راہ میں سویلین آبادی کا شور رکاوٹ نہیں بن سکے گا اور اسرائیل کو پیش رفت کا موقع ملے گا۔ یہ کہنے میں آسان ہے مگر ممکن بنانے میں مشکل ہے۔ امریکی انتخابات سے پہلے اسرائیل کے ہاتھوں لبنانی عوام کافی حد تک نقصان برداشت کرچکے ہوں گے۔

اس میں انفرا اسٹرکچر کا نقصان بھی شامل ہو گا۔ اسرائیل کے لیے یہ بہترین وقت ہے۔اس خطے کی سیاست جس تیزی سے بدلتی ہے اس کے بارے میں پیشگی کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ پچھلے برس کئی ممالک میں افہام و تفہیم کا دور شروع ہوا اور ایسا لگا کہ اب یہ خطہ امن و امان کا گہوارہ بن کر منظر عام پر آئے گا، مگر اب حالات میں تبدیلی دکھائی دے رہی ہے اور کئی تبدیلیاں نا خوشگوار ہیں۔اگرچہ لبنان کی خود کی اپنی مضبوط فوج ہے، مگر اقتصادی بحران کی وجہ سے لبنان اپنی فوج کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہیں اس کو کئی ممالک کی مالی امداد اور تعاون پر منحصر ہونا پڑتا ہے۔ ان ممالک میں امریکا، قطر، فرانس، سعودی عرب، ایران بطور خاص شامل ہیں۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ ممالک لبنان کے کئی پلیئرس کی حمایت کرتے ہیں اور ان کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے کبھی درپردہ اور کبھی کھلے عام دباو ¿ ڈالتے ہیں۔ لبنان ایک طویل عرصے تک خانہ جنگی کا شکار رہا ہے اور طائف سمجھوتہ کے بعد سیاسی استحکام کا جو فارمولہ ہوا تھا اس کے تحت کچھ عہدیداروں اور وزارت کو خاص مکاتب فکر، مذاہب اور نسلوں کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔ لبنان میں شیعہ، سنی، عیسائی اور دیگر کئی مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد حساس اور بااثر عہدوں پر فائز ہوتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ کئی مسلح گروہ ہیں جو روز مرہ کی زندگی متاثر کرتے ہیں، اقتصادی نوعیت کے اہم فیصلے کرتے ہیں اور حتیٰ کہ غیر ملکی تعلقات بھی متاثر کرتے ہیں۔

حزب اللہ جو ایک سیاسی طاقت بھی ہے اور اسرائیل مسلسل اپنی روایتی تصادم کی وجہ سے باہم متصادم رہتے ہیں۔ 1975سے 1990کے درمیان تک لبنان میں جو خانہ جنگی رہی، اس کے اثرات ابھی تک لبنان میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ عسکری معاملہ میں حزب اللہ کو بالا دستی حاصل ہے۔ 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 33دن کی جنگ ہوئی تھی، جس میں اسرائیل کو لبنان کی وادی بقا سے اپنے فوجیوں کو واپس بلا نا پڑا تھا۔ اسرائیل جو کہ پڑوس کے تمام ملکوں پر اپنی عسکری بالا دستی بڑی طاقتوں کی سرپرستی کی وجہ سے حاوی رہتا ہے، اس کو قدر شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کے اثرات اسرائیلی فوج پر ابھی بھی نظر آتے ہیں۔اسرائیل 17سال پہلے واپس وادی بقا سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا، اس انخلا کی سالگرہ کے موقعے پر حزب اللہ ہر سال بڑی پریڈ کرتا ہے، اگرچہ یہ پریڈ غیر مسلح ہوتی ہے، مگر اس کے نفسیاتی اثرات ہوتے ہیں جو لبنان کی سیاسی اور سماجی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں اب حالات یہ ہے کہ دونوں فریق یا حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہے اور یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے خطے کی موجودہ بظاہر پرامن صورت حال متاثر ہوسکتی ہے۔ اسرائیل کئی مسلم ملکوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے ایک غاصب طاقت بن گیا ہے جو نہ صرف فلسطینیوں پر مظالم کررہی ہے بلکہ پڑوس کے تمام ملکوں کی سرزمین قبضہ کرنے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عمل میں لانے کی کوشش کررہی ہے۔

امریکا اور اسرائیل متحدہ حکمت عملی اپنا کر ایران کو کنارے کرنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر لبنان کی طرف سے آنے والی مزاحمت اسرائیل کو بھاری پڑسکتی ہے۔ اسرائیل کو مسلح کرنے میں اپنے کردار کی وجہ سے، امریکا پر بارہا اسرائیلی جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ جس چیز نے امریکی پوزیشن کو مزید مشکل بنا دیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے دوسری جگہوں پر قبضوں کے بارے میں بالکل برعکس موقف اختیار کیا ہے۔ 2022 میں، جب روس نے یوکرین پر مکمل حملہ کیا اور اس کے علاقے کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا، واشنگٹن عالمی مذمت میں سب سے آگے تھا، جس نے یوکرین کی فوج کو اربوں کی فوجی اور مالی امداد بھیجی۔ اس نے ایک پریشان کن دہرا معیار قائم کیا ہے جس کی پیروی امریکا کے ساتھ دیگر ممالک نے بھی کی ہے۔ان جغرافیائی سیاسی اتحادوں میں موجود دوعملی عالمی قانونی فریم ورک کی سا لمیت کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتی ہے۔ اسرائیل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس کی زیادتیاں وحشیانہ اور مہلک ہوتی جاتی ہیں اور اس کی خلاف ورزیوں سے نہ صرف فلسطینی آبادی متاثر ہوتی ہے، بلکہ استثنیٰ کا یہ نمونہ انصاف اور احتساب کے بنیادی اصولوں کو کمزور کرتا ہے اور دوسروں کو ایسے جرائم میں ملوث ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔بین الاقوامی قانون پر اعتماد بحال کرنے کے لیے طاقتور ممالک کو انسانی حقوق کو اپنے اسٹرٹیجک مفادات پر ترجیح دینی چاہیے۔ اس کے لیے عالمی برادری کے ایک متحد محاذ کی ضرورت ہے۔ قوموں کو اپنے اعمال کے لیے ایک دوسرے کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے اور سیاسی وابستگیوں یا اتحادوں سے قطع نظر خلاف ورزیوں کے خلاف بولنا چاہیے۔ انصاف کے ساتھ حقیقی وابستگی کا تقاضا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے اصولوں کو مستقل اور تعصب کے بغیر لاگو کیا جائے۔

اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی اور اب لبنان پر بمباری کا جو خطرناک کھیل، کھیل رہا ہے ،غیرجانبدار مبصرین اس کے پیچھے امریکہ اور مغربی ملکوں کی عملی مدد دیکھ رہے ہیںجبکہ 57اسلامی ممالک زبانی ہمدردی کے سوا ،ارض فلسطین کے اصل مکینوں کے قتل عام پر خاموش ہیں۔وقت آگیا ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم کا اجلاس بلاکر اس معاملے پر واضح لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔اسرائیل کی جنوبی لبنان کے علاقوں میں ڈیجیٹل دہشت گردی کے بعد مسلم ممالک سمیت عالمی برادری کو اس خوفناک منصوبہ سے تحفظ کیلئے جدید ٹیکنالوجی کی طرف آنا ہوگا۔ جس طرح ایک ایٹم بم دوسرے ایٹم بم کا ڈیٹرنس ہے، اسی طرح جدید ٹیکنالوجی کے ہتھیاروں کا ڈیٹرنس جدید ٹیکنالوجی ہی ہے جس کی طرف ہمیں فوری، بھرپور اور منظم طور پر آنا ہوگا۔عرب ممالک افرادی طاقت، ملکوں کی تعداد اور وسائل کی دستیابی کے باوجود آج اگرچہ اسرائیل سے پیچھے محسوس ہورہے ہیں مگر دین اسلام کی آمد کے بعد علم حاصل کرنے کے حکم کی تعمیل میں پرانے علوم کو زندہ کرکے کتابیں لکھ کر، تحقیق کرکے، ایجادات و اختراعات کرکے ایک وقت میں نہ صرف خود جنگی امور سمیت تمام علوم میں آگے بڑھے بلکہ یورپ کو بھی علم کی روشنی سے منور کرنے کا ذریعہ بنے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ 57مسلم ممالک اپنی افرادی طاقت اور وسائل کے باوجود کتابوں کی اشاعت، تعلیم کے فروغ، تحقیق، ایجادات میں کیونکر پیچھے محسوس ہورہے ہیں۔ جس دور میں روس جیسی طاقت کو اسٹنگر میزائل سے زیر کرنے، طالبان کے ناقابل رسائی ٹھکانوں تک ڈرون حملے کرنے اوراسماعیل ہانیہ کو محفوظ مقام پر نشانہ بنانےکی مثالیں موجود ہیں، اس میں اگر مسلم امہ سمیت عالمی برادری کو کچھ مشکلات کا سامنا ہے تویہ ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ توسیع پسند دشمنوں کے منصوبوں سے باخبر رہا جائے اور ان کے توڑ کیلئے تحقیق و ٹیکنالوجی کے میدان میں یکسوئی اور بھرپور توانائی سے کام کیا جائے۔

اسرائیل کے مسلمانوں پر مظالم کا بنیادی سبب اس کی ٹیکنالوجی کیساتھ ساتھ مسلم حکمرانوں کی کمزوری بھی ہے ، اتنی کھلم کھلا دہشت گردی اور تمام عالمی قوانین کی پامالی کے باوجود عالم اسلام سورہا ہے۔ اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ اسرائیل بزور اپنی وسیع ریاست کے قیام کے منصوبے کا آغاز کرچکا ہے، اور ایک ایک کرکے مسلم ریاستوں کو ہڑپ اور برباد کرتا ہوا اپنی ریاست قائم کر لے گا ۔لاکھوں فلسطینی امت کے حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں کہ تم میں کوئی صلاح الدین ہے ؟ وہ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کیونکہ ہر فلسطینی کا نعرہ ہے کلنا صلاح الدین۔ مغرب کے بنائے ہوئے ادارے اقوام متحدہ نے ہتھیار ڈال دیے ہیں سیکریٹری جنرل خود بے بسی اور شرمندگی کا اظہار کرچکے ہیں۔ یہی ادارہ اآج کسی عیسائی ملک کے خلاف تھوڑی اور چھوٹی سی کارروائی پر اچانک بے بسی سے نکل آئے گا ،سب پشت پر کھڑے ہوں گے،اور57اسلامی ممالک کے حکمران کہاں ہیں، 43ملکی اسلامی فوج کس کے لیے ہے ،فتنہ الخوارج سے نمٹنے والی پاکستانی فوج ، کردوں کو کچلنے والی ترک فوج،اخوان پر ٹینک چڑھانے والی مصری فوج ،تیل کی دولت سے مالا مال طاقتور سعودی فوج کہاں ہے سعودی ولی عہد اپنی طاقت کا استعمال اسرائیل پر بھی کریں اپنے اپنے ملکوں میں اپنوں کو کچلنے والے مسلم حکمران کیا کررہے ہیں۔ وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ تو فلسطین کا مسئلہ ہے ہم تو دور ہیں، یہ ایک ایک کرکے شکار ہوں گے اور پھر رونے والا بھی کوئی نہیں ہوگا، اگر مزاحمت نہیں کی تو زندگی نہیں، کیونکہ مزاحمت ہی میں زندگی ہے۔ مدد اللہ کی ہوگی مادی قوت پر بھروسہ نہ کریں۔ حکمران ایمان تازہ کریں، مغرب کے بنائے ہوئے اداروں سے امید نہ لگائیں خود صلاح الدین ایوبی بنیں،جب ایمان لے کر نکلیں گے تو اسرائیل کی ٹیکنالوجی بھی دھری رہ جائے گی، یہ مسلم حکمران فضائے بدر تو پیدا کریں، پھر فرشتوں کو اترتے خود دیکھیں گے۔

راحیلہ رحمن

کراچی سے تعلق رکھنے والی سینئر صحافی ہیں۔جو پہلے راحیلہ ممتاز کے نام سے اخبار وطن ، غازی اور تکبیر میگزین سمیت ملک کے مختلف اخبارات میں سپورٹس ،قومی اور بین الاقوامی امور، حالات حاضرہ اور سماجی مسائل سمیت عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف موضوعات پر لکھتی تھیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتی تھیں۔اب انہوں نے راحیلہ رحمن کے نام سے لکھنا شروع کیا ہے۔

راحیلہ رحمن