ایف پی سی سی آئی بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م اور آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاک افغان تجارت سے لاکھوں افراد کا رزق وابستہ ہے اس لئے اس معاملہ کو سنجیدگی سے دیکھا جائے اور لوگوں کا روزگار ختم ہونے سے بچایا جائے۔ مسلسل گرتی ہوئی برآمدات کو سنبھالنے کےلئے تجارتی رکاوٹیں فوری طور پر دور کی جائیں۔
میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ کبھی پاک افغان سرحد کو تجارت کےلئے مکمل طور پر بند کر دیا جاتا ہے تو کبھی صرف افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لئے کھولا جاتا ہے جبکہ مقامی درآمد و برآمدکنندگان کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو حیران کن امر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاک افغان تجارت پر نظر رکھنے والے حکام کنفیوز ہیں اور بھاری نقصانات کا سبب بن رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ہفتے میں تین دن ٹرانزٹ ٹریڈ کے لئے سرحد کھولنے کی اجازت دی گئی جس کے بعد وزارت تجارت کے بجائے وزارت داخلہ نے ہفتے میں پانچ دن کے لئے تجارت کی اجازت دے دی۔ یہ جانتے ہوئے کہ پاکستانی تاجر روزانہ پانچ سو سے زیادہ ٹرک اور کنٹینر افغانستان بھجواتے ہیں۔ صرف ایک سو ٹرکوں یا ٹریلروں کو سرحد سے گزرنے کی اجازت دی گئی ہے جس میں پچاس افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور پچاس مقامی تاجروں کے ہوں گے، جو حالات سے پریشان اور کورونا وائرس کی وجہ سے ناقابل برداشت نقصانات اٹھانے والی کاروباری برادری کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے تجارت پر پابندی اٹھانے کی اطلاع پر برآمدکنندگان نے ہزاروں ٹرکوں پر سامان لوڈ کر دیا مگر اب انہیں پہنچانا مسئلہ بنا ہوا ہے کیونکہ ایک دن میں پچاس ٹرکوں سے زیادہ کو سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں ہے جبکہ بے یقینی کی یہ کیفیت سرحدوں پر فرائض سرانجام دینے والے بعض افراد کے لئے نوٹ چھاپنے کا ذریعہ بن گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختون اور سابقہ فاٹا میں گھی سے دس کارخانوں سمیت بہت سی ملیں صرف افغانستان کی ضروریات کے لئے بنائی گئی ہیں اور اگر سرحد مکمل طور پر نہ کھولی گئی تو یہ بند ہو جائیں گے جس سے محاصل اور روزگار دونوں کا نقصان ہو گا جبکہ سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ پاک افغان سرحد کے حالات دیکھتے ہوئے ایران اور تاجکستان نے افغانستان کے لئے اپنی برآمدات بڑھا دی ہیں اور یہ منڈی بھی دیگر منڈیوں کی طرح پاکستان کے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔