بھوٹان کی سرحدوں سے کوئی سمندر نہیں ملتا۔ جبکہ بین الاقوامی معیار کا ہوائی اڈہ بھی یہاں صرف ایک ہے۔ جو دارالحکومت تھمپو میں واقع ہے۔
پھر بھی یہ ملک غریب یا کم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست سے باہر نکل آیا ہے۔ اس کامیابی پر عوام فخر محسوس کر رہے ہیں۔ بھوٹان میں صنعت کا پہیہ چل رہا ہے۔ زراعت کے شعبے میں ترقی ہو رہی ہے۔
تقریباً 8 لاکھ نفوس پر مشتمل یہ ملک بجلی کی پیداوار اور ایکسپورٹ سے بھاری زر مبادلہ کما رہا ہے۔ عوام خوش حال ہیں اور امن و سکون کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
بھوٹان نے یہ سنگ میل معاشی ترقی کے ذریعے ہی عبور کیا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں بھوٹان نے معنی خیز پیش رفت کرتے ہوئے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔
بھوٹان کی سالانہ شرح نمو 7 فیصد سے زیادہ ہے۔ جبکہ 20 برس کے دوران بھوٹانی معیشت 8 گنا سے زائد بڑھ چکی ہے۔ جو کہ 2000ء میں 30 کروڑ ڈالر بھی نہیں تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے 2017ء تک ڈھائی ارب ڈالر سے بھی بڑھ گئی۔
اس کے بعد سے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی آئی ہے اور اب بھوٹان میں محض 3 فیصد افراد غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔
اسی طرح بھوٹان نے اپنی پن بجلی کی برآمدات میں بھی اضافہ کیا اور بھارت کو بجلی فراہم کرکے اپنی معشیت کو مضبوط کیا ہے۔ پن بجلی کی برآمدات بھوٹانی معیشت کا 20 فیصد بنتی ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ بھوٹان میں فی کس سالانہ آمدنی بھارت سے بھی 30 فیصد زیادہ ہے۔ جو 3 ہزار 800 ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ دنیا کے خوش حالی اور فارغ البالی کے انڈیکس میں بھی بھوٹان اوپر کے نمبروں پر ہے۔
بھوٹان اپنے وسائل کا 7 اعشاریہ 4 فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے۔ یہاں شرح تعلیم تقریباً 60 فیصد ہے۔ اس کی فوج انتہائی کمزور ہے اور 16 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ہے۔
بھوٹانی فوج کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں بھارتی بری فوج پر انحصار کرتی ہے۔ بھوٹان کی بحریہ ہے نہ ائیر فورس ہے۔ یہ خالصتاً ایک زرعی ملک ہے۔
اس کی 80 فیصد آبادی کی زندگی زراعت سے وابستہ ہے۔ زراعت میں مکئی اور گندم سمیت معمولی اناج کی فصل کی کاشت بھی شامل ہے۔ جبکہ سب سے بڑی فصل چاول کی ہے۔
چونکہ بھوٹان سے کوئی سمندر نہیں ملتا اور یہ براہ راست اشیا درآمد نہیں کرسکتا۔ اسی لئے امپورٹ ہونے والی تمام اشیا بھارت سے ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے بھوٹان میں آتی ہیں۔
چین کے ساتھ اس کا بارڈر کئی عشروں سے بند ہے۔ جس کی وجہ غیر قانونی آمد و رفت بتائی جاتی ہے۔ بھوٹان دنیا کا وہ واحد ملک ہے۔ جو تیز رفتار ترقی اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اس دور میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرنے کے مقابلے میں اس گیس کو زیادہ جذب کرتا ہے۔
کورونا دور میں بھوٹان دنیا کا سب سے محفوظ ملک تھا۔ یہاں کورونا کیسز کی تعداد انتہائی کم ریکارڈ کی گئی۔ تاہم وبا کے اثرات نے بھوٹان کو بھی معاشی پالیسی میں تبدیلی پر مجبور کیا۔ گزشتہ برس حکومت نے زر مبادلہ بچانے کیلئے گاڑیوں کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی۔
بھوٹان رواں برس 13 دسمبر کو اقوام متحدہ کی ”ایل ڈی سی“ یعنی کم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست سے باضابطہ طور پر نکل جائے گا۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے ایل ڈی سی درجہ بندی کا قیام 1971ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔
کسی بھی قوم کو مذکورہ فہرست سے نکلنے کیلئے آمدنی، انسانی وسائل اور معاشی استحکام کی تینوں کیٹگریز کی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ 1971ء سے اب تک 7 ممالک اس لسٹ سے نکلے ہیں، جن میں باٹسوانا، کابو ورڈے، مالدیپ، ساموا، ایکوٹوریل گنی اور ونواتو شامل ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھوٹان کے بادشاہ جگمے سنگیے جمہوریت کے حامی ہیں۔ انہوں نے اپنے زیادہ تر اختیارات آئینی حکومت کو دے رکھے ہیں۔ بھوٹان میں 2008ء سے پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بادشاہ جگمے سنگیے نے ایک عام خاتون کو ملکہ بنایا۔ انہوں نے 2011ء میں جیسٹن پیما نامی ایک بھارتی خاتون سے شادی کی تھی۔ جو بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے ایک عام خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔