اسلام آباد: غیرملکی سرمایہ کاروں کی انجمن او آئی سی سی آئی نے حکومت پاکستان کی جانب سے تواتر کے ساتھ ٹرن اوور ٹیکس وصول کرنے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کم منافع والے کاروباروں پر بھی انتہائی زیادہ ٹرن اوور ٹیکس نافذ ہے، جس کے باعث پاکستان میں بزنس کیلئے ماحول سازگار نہیں۔ واضح رہے کہ پیٹرولیم اور کیمیکل بزنس جیسے سیکٹرز میں منافع کی شرح کم ہے، جبکہ ان کے مجموعی کاروباری حجم کی بنیاد پر ایک فیصد ٹرن اوور ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ کاروبار سے حاصل منافع پر عائد ٹیکس اس کے علاوہ ہے۔
تفصیلات کے مطابق اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کا اہم اجلاس آج اسلام آباد میں ہوا، جس میں وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ غیر ملکی سرمایہ کاروں سے مخاطب ہوئے۔ اس موقع پر او آئی سی سی آئی صدر ہارون رشید نے وزیر خزانہ کو آگاہ کیا کہ ٹیکس ری فنڈز میں تاخیر اور دیگر مسائل کے سبب براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو پاکستان لانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی کاروبار کرنے کی آسانی کا معاملہ بھی حکومتی ایجنڈے میں شامل نہیں۔
غیر ملکی سرمایہ کاروں نے زیادہ شرح کے حامل ٹرن اوور ٹیکس کی تسلسل کے ساتھ وصولی پر بھی اپنی تشویش ظاہر کی۔
ہارون رشید نے وزیر خزانہ سے سفارش کی کہ حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کے آپریٹنگ امور کو ہموار کرنے کیلئے ایک فوکل وزارت کی تقرری سمیت پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے اقدامات کا اجتماعی طور پر جائزہ لے۔ او آئی سی سی آئی نے تجویز پیش کی کہ نئے منصوبے شروع کرنے کی صورت میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو وہ تمام مراعات دی جائیں جو پہلے کبھی انہیں حاصل تھی۔ آئی ٹی آرڈیننس ان میں سے ایک ہے۔ اس فائدہ کو کم از کم اس مرحلے تک ختم نہ کیا جائے جب تک کہ پروجیکٹس تکیمل کے دور سے گزر رہے ہوں۔
او آئی سی سی آئی نے طویل عرصے سے التوا کا شکار ٹیکس ری فنڈز اور گردشی قرضوں کے معاملات کو حل کرنے کی بھی درخواست کی۔ علاوہ ازیں شرکا نے مشیر خزانہ سے قومی بچت اسکیم میں ریٹائرمنٹ فنڈز کو 2022 کے بعد سے سرمایہ کاری نہ کرنے دینے کے اعلان پر ازسر نو جائزہ لینے پر زور دیا۔