براعظم افریقہ میں گینڈے کا شکار منافع بخش کاروبار سمجھا جاتا ہے۔ 5 افریقی ممالک میں گینڈوں کے غیر قانونی شکار سے وائلڈ لائف افسران لاکھوں ڈالر کما رہے ہیں۔ افریقہ کے بھاری بھرکم جانور کو شکار کرنے کیلئے دنیا کے امیر ترین شکاری بڑی تعداد میں جنوبی افریقہ، کینیا، نیمیبیا بوٹسوانا، زیمبیا اور تنزانیہ کا رخ کرتے ہیں۔
امریکی میگزین بزنس ویک کے مطابق جنوبی افریقہ میں شکاری کالے گینڈے کو شکار کرکے اس کا سینگ ٹرافی کے طور پر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ تجارت کی غرض سے بھی ’’ٹرافی ہنٹنگ‘‘ کے اس سفاکانہ مشغلے سے منسلک ہیں۔ کاروباری ذہن رکھنے والے شکار گینڈے کا سینگ ایشیائی منڈی میں دوگنی قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں۔
ویت نام میں گینڈے کی ناک پر اُگے سینگوں کو معجزانہ طبی خصوصیات کا حامل سمجھا جاتا ہے، جس کے باعث یہاں اس کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔
گینڈے کا شکار کرنے کیلئے شکاریوں کی جانب سے وائلڈ لائف افسران کو ساڑھے 3 لاکھ ڈالر ادا کئے جاتے ہیں، جس بعد انہیں ’’ٹرافی ہنٹنگ‘‘ کی اجازت ملتی ہے۔ صرف جنوبی افریقہ میں گینڈا شکار کرنے کی انڈسٹری کو سالانہ 115 کروڑ امریکی ڈالر کا منافع ہوتا ہے۔ جبکہ اس آمدن میں ہر برس اضافہ ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق افریقی گینڈے معدومی کے خطرے سے دوچار انواع میں شمار ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کی مجموعی تعداد 25 ہزار کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔ گزشتہ برس جنوبی افریقی حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں تقریباً 500 گینڈوں کا غیر قانونی شکار کیا گیا، جن میں اکثریت کروگر نیشنل پارک کے گینڈوں کی تھی۔ 2014 سے کروگر نیشنل پارک میں گینڈوں کی تعداد 9 ہزار سے کم ہو کر 5 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
اس سے قبل 2017 میں جنوبی افریقہ میں ریکارڈ 691 گینڈوں کا شکار کیا گیا تھا اور سینگ کاٹ دیئے گئے تھے۔ یہ تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں 26 فیصد زیادہ ہے۔
امریکی جریدے کے مطابق گینڈے کے سینگ چین اور ویت نام جیسے ممالک میں بھاری رقوم کے عوض فروخت ہوتے ہیں، جنہیں روایتی ادویات بنانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب بھارت اور نیپال میں گینڈے کا غیر قانونی شکار کیا جاتا ہے۔