کوالا لمپور: مسلم دنیا کے ممتاز رہنما اور ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے پاس کے اس بات کا حق ہے کہ وہ فرانس کی ماضی کی بربریت پر طیش میں آئیں اور فرانس کے لاکھوں لوگوں کا قتل کردیں۔ مہاتیر محمد نے اپنی پوسٹ کا آغاز یہ کہہ کر کیا کہ بطور مسلمان انہوں نے فرانسیسی ٹیچر سیموئیل پیٹی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی تھی، جبکہ آزادی اظہار رائے کو دوسروں کی توہین کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ کسی کو قتل کرنا وہ عمل نہیں ہے جس کی بطور مسلمان میں اجازت دوں گا، لیکن چونکہ میں اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتا ہوں، میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس میں دوسروں کی توہین کرنا شامل ہے، آپ کسی کے پاس جاکر اسے صرف اس لیے بھلا بُرا نہیں کہہ سکتے کیونکہ آپ آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتے ہیں۔
ان کہنا تھا کہ مسلمانوں کے پاس غصہ ہونے کا حق ہے اور وہ ماضی کے جرائم کا بدلہ چاہتے ہیں۔ فرانسیسیوں نے اپنی تاریخ میں لاکھوں لوگوں کو قتل کیا ہے جن میں سے بیشتر مسلمان تھے۔ اس لیے مسلمانوں کے پاس اس بات کا حق ہے کہ وہ ماضی کی بربریت کے لیے طیش میں آئیں اور فرانس کے لاکھوں لوگوں کا قتل کردیں، لیکن عمومی طور پر مسلمانوں نے آنکھ کے بدلے آنکھ کے قانون کا اطلاق نہیں کیا، مسلمان ایسا نہیں کرتے اور فرانسیسیوں کو بھی نہیں کرنا چاہیے۔
مہاتیر محمد نے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فوری طور پر مذہب اسلام اور مسلمانوں پر الزام لگایا۔ جو کچھ انہوں نے اس کے بعد کیا وہ بھی مہذب نہیں۔ ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ مسلم اکثریتی ملائیشیا شہریوں کی وجہ سے ایک پرامن اور مستحکم ملک ہے، یہ شہری مختلف نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اور جنہیں دوسروں کے حساس معاملات کا ادراک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم عصر مغربی دنیا میں کوئی اپنے مذہب پر بھی عمل نہیں کرتا، وہ صرف نام کے مسیحی ہیں، یہ ان کا حق ہے لیکن انہیں کسی صورت دوسروں کی اقدار اور مذہب کی بے عزتی نہیں کرنی چاہیے، ان کی تہذیب کی یہ سطح ہونی چاہیے کہ وہ عزت دیں۔ انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک کو باقی دنیا پر زبردستی اپنی اقدار نافذ نہیں کرنی چاہیے۔