رمضان المبارک کے شروع میں حضور کو خبر ملتی ہے کہ قریش کا تجارتی قافلہ شام سے واپس آ رہا ہے. یہ وہی قافلہ ہے جس میں سارے قریش نے اپنے وسعت کے مطابق جنگ کی تیاری کے لیے سرمایہ لگایا تھا.
مسلمان حضور (صلی اللہ علیہ و سلم) کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے بے سر وسامانی کے عالم میں نکلتے ہیں. اگرچہ مسلمانوں کا ارادہ جنگ کا نہیں تھا. صرف اس قافلہ کا تعاقب کرنا تھا. جس کی وجہ سے کفار کی طاقت میں اضافہ ہو رہا تھا.
مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ یا چودہ تھیں اور سواری کے لیے صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے. ایک اونٹ پر تین، تین صحابی باری، باری سفر کرتے تھے. اس دن آسمان نے وہ منظر بھی دیکھا کہ لشکر کا سپہ سالار بھی باری باری سواری کرتاہے.
ابوسفیان کو مسلمانوں کے لشکر کا پتہ چل جاتا ہے. وہ فوراً دوآدمیوں کو مکہ کی طرف راونہ کر دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے قافلہ کا خبر لے.
یہ خبر مکہ میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور سرداران مکہ کو اپنے رعایا کو جنگ پر ابھارنے کا بہترین موقع ہاتھ آ جاتا ہے. کفار مکہ کے مرد و زن نے اپنے لاؤ لشکر، آلات لہو ولہب اور غرور و تکبر کے ساتھ میدان بدر کا رخ کیا.
بدر کا علاقہ مدینہ منورہ سے ایک سو بیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور شخص یا کنویں کے نام پر موسوم ہے. ادھر ابوسفیان قافلے کا رخ موڑ کر دوسرے راستے پر جو سمندر کے کنارے پر واقع ہے، چلتے ہیں اور ان کا قافلہ بچ نکلتا ہے.اس کے بعد اکثر سردار جنگ کے لیے آمادہ نہ تھے. کیونکہ جس مقصد کے لیے وہ نکلے تھے وہ پورا ہو گیا اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں اپنے حبیب (صلی اللہ علیہ و سلم) اور ان کے جان نثاروں کا رغب ڈال دیا. مگر ابوجہل نے ان کو عار دلاتے ہوئے جنگ پر آمادہ کیا.
یوں سترہ رمضان المبارک جمعہ کے دن معرکہ ایمان و مادیت کے لیے صفیں باندھ دی گئی. ایک طرف ننگے بدن تو دوسری طرف زرہ سے ملبوس ابدان، ایک طرف گھڑ سوار تو دوسری طرف سواری کے لیے بھی اونٹ ناپید، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس دن ایک پیمانہ قائم کرنا تھا جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا. کہ جب حق آئے گا تو باطل دم دبا کر بھاگے گا.
حضور (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اپنے اصحاب اور انسانیت کے لیے دعا مانگی کیونکہ؛ اگر یہ تھوڑے سے انسان آج کے دن مغلوب ہو جاتے تو شاید رہتی دنیا تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے کوئی نہ ہوتا اور انسانیت تاریکی ہی تاریکی میں ڈوبی ہوتی. دعا کے بعد گھمسان کی لڑائی شروع ہوگئی. مسلمانوں کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے لشکر بھیج دئیے اور دیکھتے ہی دیکھتےاللہ تعالیٰ نے تین سو تیرہ کو ایک ہزار پر غلبہ دے دیا.
جنگوں میں جدید اسلحہ رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے. لیکن جنگیں اسلحہ سے نہیں ایمانی طاقت سے لڑی جاتی ہیں. اگر ایمانی طاقت ہو تو دنیا کے چالیس ترقی یافتہ اور سپر پاور اقوام بھی آپ پر حملہ آور ہو جائیں تو کامیابی آپ کے قدم چومے گی. اس طرح آپ کی مدد کے لیے اب بھی فرشتے اتر سکتے ہیں.
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی