پی ٹی آئی حکومت کا پہلا مکمل بجٹ مسترد کرنے والا پہلا چیمبر اسی صوبہ کا ہے، جہاں پی ٹی آئی نے 5 برس حکومت کی اور اب بھی خیبر پختون میں اسی کی حکومت ہے۔ خیبر پختون چیمبر آف کامرس کی جانب سے جاری کئے گئے ایک بیان کے مطابق اس بجٹ میں عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ اور کاروباری طبقے پر اتنا بوجھ ڈال دیا گیا جو وہ اٹھانے کے قابل ہی نہیں۔ اس لئے کاروباری طبقہ اس بجٹ کو مسترد کرتا ہے۔
بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کی نمائندہ تنظیم فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے بجٹ 2019-20 پر غور کیلئے اپنی ایگزیکٹو کمیٹی اور جنرل باڈی کا ہنگامی اجلاس ایف پی سی سی آئی ہیڈ آفس کاراچی، ریجنل آفس لاہور اور کیپٹل آفس اسلام آباد میں طلب کیا، جس کی صدارت ایف پی سی سی آئی کے قائمقام صدر نور احمد خان نے کی۔
اجلاس میں شرکاء نے حکومت کی جانب سے 5 ایکسپورٹ سیکٹر پر زیرو رٹیٹڈ کی سہو لت ختم کرنے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ 17 فیصد سیلز ٹیکس کے 5 ایکسپورٹ سیکٹرز پر نفاذ سے ریفنڈز اور کر پشن کے مسائل دو بارہ جنم لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ زیروریٹ اسکیم کئی دہائیوں سے نفاذ تھی جس کی وجہ سے مذکورہ سیکٹرز بالخصوص ٹیکسٹائل کی صنعت کی برآمدات میں اضافہ ہوا، جو ہماری معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ حکومت نے اس اسکیم کو مزید فروغ دینے کی بجائے اس اسکیم کو ختم کر دیا، انہیں امید ہے کہ آٹو میٹڈ ریفنڈسسٹم موثر طریقے سے عمل کر ے گا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سیلز ٹیکس کے زیر التوا ریفنڈز کو بلا تاخیر ادا کیا جا ئے۔ شرکا نے کہا کہ بجٹ میں تقریباً 700 بلین اضافی ٹیکس وصول کرنے کا ہدف مشکل ہو گا اور بتایا کہ ہدف پورا کرنے کی صورت میں منی بجٹ لا یا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ خوردنی تیل پر 17 فیصد ایف ای ڈی اور سیلز ٹیکس کی شرح میں 8 سے 17 فیصد اضافے سے عام آدمی متاثر ہو گا۔
ایف پی سی سی آئی نے مطالبہ کیا کہ طویل عرصے کیلئے معاشی پالیسی کی تیاری کیلئے چارٹر آف اکنامی بنایا جائے۔ اشتہارات پر 10 فیصد ٹیکس ختم کیا جائے۔ کاروباری عورتوں کو دو سال کیلئے ٹیکس چھوٹ دی جا ئے۔ ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کیلئے مشینری کی قیمت پر 10 فیصد ٹیکس چھوٹ بحال کی جائے۔
نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ انڈسٹری (نکاٹی) کے سرپرست اعلیٰ کیپٹن اے معیز خان، صدر سید طارق رشید، سینئر نائب صدر اظفر حسین اور نائب صدر فیصل شابو نے وفاقی بجٹ 2019-20 کو صنعتوں کے فروغ میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے 5 برآمدی سیکٹرز کیلئے زیرو ریٹنگ سیلز ٹیکس کی سہولت ختم کرنے کو صنعتوں کیلئے تباہ کن قرار دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایس آر او 1125 کو منسوخ کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے برآمدی سیکٹرز کیلئے یہ سہولت دوبارہ بحال کرے۔
نکاٹی کے رہنماؤں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برآمدی صنعتوں کیلئے سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے سے پیداواری لاگت میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہوجائے گا اور برآمد کنندگان کو سرمائے کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے برآمدات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے سے برآمدی صنعتیں تباہ جائیں گی اور بے روزگاری کا سیلاب آجائے گا، جس کی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد ہوگی۔
ادھر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے سابق صدر اور بزنس مین گروپ کے سربراہ سراج قاسم تیلی نے کہا کہ ایف بی آر کو ٹیکس وصولی کیلئے 5500 ارب روپے کا انتہائی مشکل ہدف دیا گیا ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تاجر برادری نے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے تحریک انصاف کے نظریہ اور عمران خان کی سوچ سے متصادم قرار دے دیا۔ تاجر برادری سمجھتی ہے کہ وفاقی بجٹ آئی ایم ایف نے تیار کیا، 5550 ارب روپے کے ٹیکسوں کا تمام تر بوجھ عوام پر پڑے گا۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر اور بزنس مین گروپ کے سربراہ سراج قاسم تیلی نے کہا کہ چینی پر جی ایس ٹی میں اضافے سے کیا عام آدمی متاثر نہیں ہوگا؟ صنعتیں نئے ٹیکس لگنے کے بعد اپنی اضافی پیداواری لاگت کو عوام تک منتقل کریں گی جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا، چینی کے ساتھ ساتھ سیمنٹ پر بھی ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے جس سے تعمیرات مہنگی ہو جائیں گی، ہمیں چیئرمین ایف بی آر نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ٹیکس دینے والوں کو نہیں چھیڑا جائے گا تاہم اس بجٹ سے لگتا ہے کہ ٹیکس دینے والوں پر ہی مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔