دس رمضان 8ھ میں جب مکہ فتح ہوا تو اسلام کے وہ بدترین دشمن جو اکیس سال تک رسول اکرمؐ اور آپؐ کے نام لیواؤں کو ستاتے رہتے تھے وہ سب اس وقت آپ کے رحم وکرم پر تھے۔
ظلم وستم کا کوئی حربہ ایسانہ تھا جو ان ظالموں نے خدائے واحد کے پرستاروں پر نہ آزمایا ہو۔ حتیٰ کہ وہ سب اپنے گھر بار اور وطن تک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
فتح مکہ کے بعد یہ سب کفار مکہ مکمل طور پر آپؐ کے اشارہ رحم پر تھے۔ آپؐ کا ایک اشارہ ان سب کو خال میں ملا سکتا تھا۔ یہ سب جبار ان قریش خوف وندامت سے سر جھکائے آپ کے سامنے کھڑے تھے۔
خود جانتے تھے کہ ان سب نے اللہ کے رسولؐ کے ساتھ کیا کیا نہ کیا اور اس کے نتیجے میں اللہ کے رسولؐ جو نہ کریں وہ کم ہوگا۔ مگر اللہ کے رسولؐ نے کبھی اپنے ذاتی معاملہ میں کسی سے انتقام نہیں لیا۔
آپؐ نے ان کے جھکے ہوئے سر دیکھ کر ان سے پوچھا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ ”انہوں نے دبی ہوئی زبان سے کہا ”اے صادق و امین تم ہمارے شریف اور شریف برادر زادے ہو، ہم نے ہمیشہ تمہیں رحم دل پایا ہے“۔
آپؐ نے جواب میں فرمایا۔ آج میں تم سے وہی کہتا ہو جو یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا کہ تم پر کچھ الزام نہیں جاؤ تم سب آج آزاد ہو“۔ (ابن ہشام)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں مجھے اتنا ڈرایا دھمکایا گیا کہ کسی اور کو اتنا نہیں ڈرایا گیا اور اللہ کی راہ میں مجھے اتنا ستایا گیا کہ کسی اور کو اتنا نہیں ستایا گیا اور ایک دفعہ تیس رات دن مجھ پر اس حال میں گزرے کہ میرے اور بلالؓ کیلئے کوئی ایسی چیز نہ تھی جس کو کوئی جاندار کھا سکے۔ (شمائل ترمذی)
آپؐ توحید کی تبلیغ کیلئے حضرت زید بن حارثؓ کو ساتھ لئے ہوئے پیدل طائف پہنچے اور وہاں کے باشندوں کو اسلام کی دعوت فرمائی۔ جس سے وہ سب ناراض ہوئے اور درپے آزاد ہوگئے وہاں کے سرداروں نے اپنے علاقوں اور شہرکے لڑکوں کو حضور اکرم کے پیچھے لگا دیا۔
جب آپؐ وعظ کے لئے کھڑے ہوتے وہ اوباش آپ پر اتنے پتھر پھینکتے کہ حضور اکرمؐ لہو میں تربہ تر ہوجاتے۔ خون بہہ بہہ کر نعلین مبارک میں جم جاتا او روضو کیلئے پاؤں جوتے سے نکالنا مشکل ہوجاتا۔
ایک مرتبہ وعظ وتبلیغ کے موقع پر آپؐ کو اس قدر گالیاں دیں۔ تالیاں بجائیں چیخیں ماریں کہ آپؐ ایک مکان کے احاطے میں جانے پر مجبور ہوگئے۔ طائف ہی کے مقام پر ایک وعظ فرماتے ہوئے آپؐ کو اتنی چوٹیں آئیں کہ آپ بیہوش ہوکر گر پڑے۔
حضرت زیدؓ بن حارث اپنی پیٹھ پر لاد کر آبادی سے باہر لے گئے۔ پانی کے چھینٹے ڈالنے سے ہوش آیا۔ اس سفر میں تکلیفوں اور ایذاؤں کے بعد اور ایک شخص تک کے مسلمان نہ ہونے کے رنج و صدمہ کے وقت بھی آپؐ کا دل اللہ کی عظمت رحمت سے لبریز تھا۔
اس وقت بھی آپؐ کی زبان مبارک سے ان ظالموں کیلئے کوئی بد دعا نہ نکلی۔ آپؐ نے اس وقت جو دعا مانگی وہ یہ تھی۔
ترجمہ: ”اے اللہ میں اپنے ضعف، بے بسی اور لوگوں کی نظروں میں اپنی تحقیر اور بے سروسامانی کی فریاد تجھ ہی سے کرتا ہون۔ اے ارحم الراحمین تو ہی میرا رب ہے۔ اے میرے آقا تو مجھے کس کے سپرد کرتا ہے۔ بیگانوں کے جو ترش رد ہوں گے یا دشمن کے جو میرے نیک وبد پر قابو رکھے گا۔ لیکن جب تو مجھ سے ناخوش نہیں ہے تو مجھے اس کی کچھ پروا نہیں۔ کیونکہ تیری عافیت اور بخشش میرے لئے زیادہ وسیع ہے۔ تیری ذات پاک کے نور کی پناہ چاہتا ہوں۔ جس سے آسمان روشن ہوئے اور جس سے تاریکیاں دور ہوئیں۔ اور دنیا و آخرت کے کام ٹھیک ہوئے۔ تجھ سے اس بات کی پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے تیرے غضب کا سامنا ہو یا تیری ناخوشی مجھ پر وارد ہو۔ اور تجھ کو منانا ہے۔ حتیٰ کہ تو راضی ہوجائے اور تیری مدد اور تائید کے بغیر کسی کوکوئی قدرت نہیں“۔ (طبریٰ ، جلد 2ص:81)۔
اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے فرشتوں کو آپ کے پاس بھیجا۔ جنہوں نے آپؐ سے اجازت طلب کی کہ دونوں پہاڑوں کو ملا کر اس آبادی کو تباہ کر دیا جائے۔ مگر حضور اکرمؐ نے فرمایا ”میں ان لوگوں کی تباہی کیلئے کیوں دعا کروں۔ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو کیا ہوا امید ہے کہ ان کی آئندہ نسلیں ضرور خدائے واحد پر ایمان لانے والی ہونگیں۔“(صحیح مسلم)