تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

فیض احمد فیض سیریز (چوتھا حصہ)

faiz ahmad faiz series part 4
  • واضح رہے
  • اکتوبر 21, 2022
  • 11:43 شام

فیض کی شاعری میں محض روایتی عشق و محبت یا حرف و لفظ کی دروبست کا معاملہ نہ تھا بلکہ ابتدائی تعلیم و تہذیب اور فکر و دانش کے سلسلے تھے

معاصرین کے برعکس فیض احمد فیض کی شاعری دھیمی مگر دلکش منظروں کی فضا لئے ہوئے ہے۔ ''نقشِ فریادی'' کے پہلے حصے میں سترہ نظمیں ہیں، جبکہ دوسرے حصے میں کُل 11 نظمیں ہیں۔ بعض غزلوں پر بھی نظموں کے عنوانات دے دیئے گئے ہیں۔ تاہم یہ غزلیں بھی شاعر کی نظموں کے تسلسل کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ فیض کی اکثر نظمیں ایسی کیفیت میں لکھی گئی ہیں، جنہیں ''محبت کی شاعری'' کا عنوان دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس محبت کی شاعری میں اصل قوت غم ہے۔ اس میں محبت کے تجربے میں ناکامی کی کیفیات سے بھرپور اضمحلال ہے اور افسردگی ہے۔ جو بات ان کی نظموں کی شاعری کو غزل کی روایت کے قریب کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ شاعر اور محبوب کے درمیان ایک فاصلہ ہے اور شدید چاہت کے باوجود ایک تہذیبی قرینہ ہے۔

بقول فیض احمد فیض شعر لکھنا جرم نہ سہی لیکن بے وجہ لکھنا بھی کوئی دانشمندی نہیں۔ ''مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ'' فیض کے تخلیقی سفر کا ایک اہم موڑ ہے، یہاں فیض زندگ کے حقائق سے آنکھیں ملانے کی جرات کر رہے ہیں اور اپنی ذات سے نکل کر تمام انسانی صورت حال کی طرف ارتفاعی رویے سے دیکھ رہے ہیں۔ یہاں فیض کی شاعری میں غم ذات سے نکلنے کے فلسفے کی ترجمانی ہوتی ہے۔ وہاں یہ رجحان بھی ابھرا کہ غمِ حیات کی تلخیوں میں محبتوں کے سراب کو بے معنی نہ سمجھا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: فیض احمد فیض سیریز (تیسرا حصہ)

سبھی فیض کی دل نواز شخصیت اور شاعرانہ غنائیت میں اس قدر گم تھے کہ کسی نے یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہ کی ان سب کے پیچھے محض روایتی عشق و محبت کا معاملہ نہ تھا بلکہ ابتدائی تعلیم و تہذیب اور فکر و دانش کے وہ سلسلے تھے، جس نے فیض کو محض روایتی شاع نہیں بننے دیا بلکہ مفکور و دانشور بھی بنایا جس نے آگے بڑھ کر باقاعدہ ایک شکل اختیار کی اور ایک مضبوط راستہ بنایا۔

فیض احمد فیض نے اپنے گھر کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے ذریعے جو غیر معمولی اثرات قبول کئے وہ قابل غور ہیں۔ ان کے گھر میں ایک مخصوص قسم کا مذہبی ماحول تھا، جس کے ڈانڈے تصوف سے ملتے تھے۔ روایت ہے کہ فیض نے بچپن میں قرۤن پاک کا کچھ حصہ حفظ کرلیا تھا۔ ایک مضمون میں خود فیض احمد فیض لکھتے ہیں:

''صبح ہم اپنے ابا کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جایا کرتے تھے۔ معمول یہ تھا کہ آذان کے ساتھ ہم اٹھ بیٹھے۔ ابا کے ساتھ مسجد گئے۔ نماز ادا کی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے جو اپنے وقت کے بڑے فاضل تھے، قرآن شریف کو پڑھا اور سمجھا۔ ابا کے ساتھ سیر کو نکل گئے، پھر اسکول۔۔۔۔۔''

ایک بار علامہ اقبال کی زیر صدارت انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کے سالانہ جلسے میں تلاوت قرآن پاک کا واقعہ فیض احمد فیض کو ہمیشہ یاد رہا۔ خود لکھتے ہیں: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ''میں اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے ایک اونچی میز پر کھڑا کر دیا گیا۔ جب میں تلاوت کر چکا تو اقبال نے بڑے پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ تم کتنے ذہین بچے ہو''۔

یہ بھی پڑھیں: فیض احمد فیض سیریز (دوسرا حصہ)

گھر کا ماحول مذہبی تو تھا ہی روایتی اور فرسودہ بھی تھا۔ ایوب مرزا نے ایک جگہ لکھا ہے: ''فیض ایک انتہائی قدامت پسند گھر کے ماحول میں پروان چڑھ رہا تھا۔ خواتین میں پردہ اور برقعہ کا استعمال عام اور لازمی تھا''۔

سب سے پہلے فیض احمد فیض انجمن اسلامیہ کے مدرسہ میں داخل کئے گئے۔ خاصا اہتمام کیا گیا۔ خود تو مخملی جیکٹ پہنی لیکن اسکول میں تاٹ بچھا ہوا تھا اور میلے کچیلے بچے تھے۔ فیض کے نانا جو مولوی کم اور صوفی زیادہ تھے اور اکثر فیض کو اچھی اچھی سبق آموز کہانیاں سنایا کرتے تھے جس میں انسان دوستی کے پیغام نمایاں ہوتے۔ جس کا اثر کمسن فیض پر یوں پڑا کہ ان کی غریبی اور پریشان حالی دیکھ کر فیض بھونچکے سے رہ گئے۔

فیض ان غریب طلباء کے ساتھ ٹاٹ پر بیٹھ گئے اور یہ فیصلہ کیا کہ اب ہم ان کے ساتھ ہی بیٹھیں گے اور پڑھیں گے۔ یہ فیض کی زندگی کا پہلا اور عجیب تجربہ تھا، جس سے فیض کا بچپن دوچار ہوا۔ اس وقت کے فاضل اور شفیق استاد مولوی ابراہیم سیالکوٹی کے درس ابجد کے ساتھ ساتھ درس انسانیت نے بھی فیض پر اثرات مرتب کئے۔ قرآن و حدیث کا درس بھی انہی سے لیا۔ ساری زندگی مولوی ابراہیم کا ذکر عزت اور تکریم سے کرتے تھے۔ آگے چل کر میر حسن اور یوسف سلیم کے بھی شاگرد ہوئے۔ عربی سے ایم اے بھی کیا۔

فیض کی ایک بڑی بہن بی بی گل تھیں جو فیض سے خصوصی محبت رکھتی تھیں۔ فیض کو تیار کرنے اور پیدار کرنے میں آگے آگے رہتی تھیں۔ بقول انہی کے کہ فیض بچپن سے ہی حلیم طبع اور خاموش طبعیت کے تھے، صفاتی مزاج رکھتے تھے۔ کھیلنے کودنے میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔

یہ بھی پڑھیں: فیض احمد فیض سیریز (پہلا حصہ)

ایسے میں مذہبی تعلیم اور عمدہ استاد سے تربیت اور نانا سے قصہ کہانی کی رغبت نے فیض کے مزاج کو ایک راہ دی۔ ایوب مرزا نے ایک اور بات لکھی ہے: ''فیض کے ارد گرد گھریلو ماحول پر بیوہ، یتیم اور دکھی خواتین کی موجودگی کا گہرا اثر تھا۔ ایسے اثرات کے نتیجے میں وہ بچپن سے ہی نرم پسند، نرم مزاج اور صلح جو ہوگئے''۔

ایک اور جگہ لکھا ہے: ''فیض احمد فیض کی ایسی تربیت اور ماحول نے اس کی جبلت میں عمر بھر غم سہنے اور غصہ پینے کی خصلت و دیعت کردی۔ اس پر علم کے ساتھ ساتھ عمل کے نئے دریچے واہونا شروع ہوئے''۔ (جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے