فیض عربی اور فارسی ادب کی روایت کے مطالعے کے ناطے اپنی نظموں اور قطاعات میں جس غنائی ترنگ کی طرف لوٹتے رہے ہیں اس کا تعلق خواجہ حافظ اور پھر غالب کی روایت سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ یہ شاعر فیض کے نظموں کے اسلوب میں بھی ایک غزل کے تمدن کی لہر کو زندہ رکھتے ہیں، لیکن دوسری طرف فیض نے انگریزی شاعری کی رومانوی اور نورومانوی تحریک کے اثرات بھی قبول کئے۔
انہوں نے مایوکوفسکی اور انیسویں صدر عظیم روسی شاعر پشکن کے رومانوی رویوں سے بھی تحریک حاصل کی۔ لیکن شیلے کے ردعمل، اس کے اسلوبکی ولولہ انگیزی اور جاگیردارانہ عہد کی ریاکاریوں کا پردہ چاک کرنے کی بے ساختگی جیسی خوبیوں نے یقیناً فیض کو بھی متاثر کیا۔
اسی طرح برائونٹ کی شاعری کے امید کے رویے میں بھی فیض کے مزاج کو ہم آہنگی نظر آئی، لیکن فیض نے خود بھی اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ اپنے نظموں کے اسلوب کی تشکیل میں انہوں نے برائونٹ کی ڈرامائی خود کلامی (مانولاگ) کی تکنیک سے بھی مدد لی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ خود کلامی فیض کی شاعری کے اسلوب کی سب سے نمایاں صفت ہے۔ غزل کا سانچہ مانولاگ سے بہت مناسبت رکھتا ہے۔ لیکن فیض نے غزل میں بھی ''ہم'' کا صیغہ استعمال کیا، تاکہ تاریخ کی زرم گاہ کو اپنے احساسات سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: فیض احمد فیض سیریز (پہلا حصہ)
رومانوی شاعری کو عام طور پر مغربی نقاد اسلوب کے حوالے سے فنکار کا داخلی مسئلہ سمجھتے ہیں۔
‘There they are, my fifty men and women naming me the fifty poems finished..!
Take them, love, the book and me together.
Where the heart lies, let the orain lie also’.
یہ اقتباس برائونٹ کی نظم ‘One World More’ سے لیا گیا ہے، جس کا فیض کی زبان میں ترجمہ 'اِک سخن اور' ہے۔ موضوع سے قطع نظر برائونٹ کی نظم کا اسلوب فیض کی اس نظم کے اسلوب کی فوراً یاد دلاتا ہے۔
یوں گماں ہوتا ہے بازو ہیں میرے ساٹھ کروڑ اور آفاق کی حد تک مرے تن کی حد ہے دل مرا کوہ و دمن دشت و چمن کی حد ہے
فیض کے عہد میں ایک نئی طرح کی رومانیت کی لہر ابھر آئی تھی۔ یہ رومانیت انقلاب کی کامیابی کی امید اور اس کیلئے جدوجہد سے متعلق تھی۔ تاہم فیض کی ابتدائی نظموں میں محبوب کی دوری اور فاصلے کے باعث ایک ذاتی نا آسودگی کی یہ تھی۔ اس نا آسودگی کی لہر کیلئے اختر شیرانی اور حفیظ جالندھری وغیرہ کے حوالے سے ایک شاعرانہ فضا ہموار تھی۔
ظاہر ہے کہ یہ مطالعہ فیض کی شاعری کے ابتدائی دور سے متعلق نظر آتا ہے اور یہ رنگ بعد کی شاعری میں بھی ابھرتا رہا ہے، لیکن روایت کی خوابناکی کی کیفیات پر ایک اور کیفیت نمایاں ہوکر ابھری ہے اور وہ ہے ناانقلابی ماورائیت، یہیں فیض نے مانولاگ برتنے کی ضرورت محسوس کی۔
فیض ورٹزورتھ کی طرح فطرت کے مشاہدے میں دیر تک گم وہ کر انقلابِ فرانس کی طرف نہیں آئے، بلکہ صورتِ حال اور اس کو بدلنے کی انقلابی امنگ نے انہیں ایک رومانوی اسلوب مہیا کیا۔
اردو ادب میں تو رومانوی تحریک کے ہم عصر ہی ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ فیض کی شاعری یقیناً یا تو انقلاب کی طرف نہ آتی یا اردو وسیلے سے آتی اگر انہیں رشید جہاں کی معرفت اپنی ذات پر دوسروں کے دکھوں کو ترجیح دینے کا سبق نہ ملتا اور یوں ان کی شاعری گل و بلبل کے نغموں ار فطرت کے مناظر کے شاعرانہ اسباق سے آگے نکل کر انسانی مسائل اور دکھوں سے آنکھیں ملانے کی اہل ہوئی۔
انہوں نے فارسی روایت کی تشبیہات، استعارات کو نئے معنی دیئے۔ شاید فیض کی شاعری یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر کی حدود سے تجاوز نہ کرتی اگر فیض کو 'راولپنڈی سازش کیس' کے حوالے سے قید و بند کے مراحل سے نہ گزرنا پڑتا۔ اس تجربے نے فیض کو تیرگی کے خلاف سپرانداز ہونے کا نیا حوصلہ دیا اور اس عمل میں کلاسیکل شاعری کے اجزا کو ایک ترقی پسند روایت سے جوڑنے کی ترکیب پیدا کی۔
اپنی طویل نظر بندی کے دوران سودا اور برائونٹ سے امید کا پیغام لیا اور یہیں مستقبل کیلئے پُرامید اور زندہ رہنے کا عزم دیا، لیکن ترقی پسند تحریک سے فیض نے جو کچھ حاصل کیا وہ محض سماجی شعور ہی نہیں بلکہ آرٹ کی ہنر مندی بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فیض احمد فیض سیریز (دوسرا حصہ)
فیض ظالم و مظلوم کی جنگ میں اپنی شاعری کو محاذِ جنگ پر لے جاتے ہیں اور اس عمل میں کمال ہ ہے کہ وہ شاعری کو نعرہ نہیں بننے دیتے بلکہ ردعمل کے جو شیڈا ابھرتے ہیں، ان میں ایک آہستہ خرامی اور قینے سے رنگ بھرتے ہیں۔ یوں وہ روایت کی شاعری سے قطع تعلق نہیں کرتے۔
فیض نے برائوننگ کی فرالپولپی (Fralippolippi) جیسے طویل نظم لکھ کر مانولاگ کی تکنیک نہیں برتی۔ بلکہ وہ اپنی غنائیت کے باوصف مختصر نظموں کو اپنے احساسات کی ترجمانی کیلئے زیادہ قریب پاتے ہیں۔
اسی طرح فیض نے شیلے کے انداز میں The Revolt of Islam یا Queen Mab جیسی نظم نہیں لکھی، لیکن شیلے کے اسلوب کی شعلہ نوائی اور بے ساختگی فیض کی شاعری میں بھی نمایاں کھنک پیدا کرتی ہے۔ فیض کی نظموں کے اسلوب کے بارے میں بحیثیت مجموعی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے رومانوی انگریزی شاعری کے سانچے میں غزل کے مزاج اور اسلوب کو شامل کرکے نظموں کے پوٹریٹ بنائے۔
ان کے دور میں نہ صرف عالمی سطح پر سیاسی صورتِ حال بدل رہی تھی بلکہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے درمیان اور مابعد کے ادوار میں فلسفہ، سائنس اور نفسیات کے شعبوں میں انتہائی انقلابی خیالات نے نشوونما حاصل کی۔
(جاری ہے)