تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

فیض احمد فیض سیریز (دوسرا حصہ)

faiz ahmad faiz series part 2
  • واضح رہے
  • ستمبر 21, 2022
  • 12:35 صبح

فیض احمد فیض نے بطور استاد اور تعلیمی ناظم گراں قدر خدمات انجام دیں۔ امرتسر میں ان کا شمار ماہر استادوں میں ہوتا تھا

موجودہ بھارت کے شہر امرتسر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ فیض نے عملی زندگی کا آغاز اسی شہر سے کیا۔ فیض گورنمنٹ کالج اور اورینٹل کالج لاہور سے انگریزی اور عربی میں ایم اے کرنے کے بعد حصول روزگار کیلئے 1935ء میں میں امرتسر پہنچے۔

فیض احمد فیض امرتسر کے ایم اے او کالج میں انگریزی پڑھانے پر مامور ہوگئے۔ اُن دنوں ایم اے او کالج امرتسر میں مسلمانوں کیلئے اعلیٰ تعلیم کا واحد ادارہ تھا۔ اس کالج کے قیام سے پہلے امرتسر کے مسلمان طلبا میٹرک کے بعد ہندوئوں کے ہندو سبھا کالج یا سکھوں کے خالصہ کالج میں داخلہ لے کر تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔

ایم اے او کالج کا امرتسر میں بڑا نام تھا۔ غالباً اسی وجہ سے فیض نے یہاں ملازمت کو ترجیح دی۔ امرتسر کے ایک پرانے باسی نصر اللہ خاں جو ایم اے او کالج میں فیض کے شاگرد رہے اور پھر وہاں اُن کے حلقہ احباب میں بھی شامل تھے، نے اپنے مضمون میں لکھا ہے:

فیض صاحب ایم اے او کالج میں بڑے دھوم دھڑکے سے آئے تھے۔ ان کے آنے سے پہلے کالج کھلنے کے سلسلے میں انجمن اسلامیہ کی طرف سے ایک قد آور پوسٹر لگایا گیا تھا، جس میں پرنسپل اور اساتذہ کے نام اور ڈگریاں وغیرہ لکھی گئی تھیں۔ اس میں فیض کا نام نامی بھی درج تھا۔

یہ ایم اے او کالج کے جید اساتذہ کی صحبت اور معیت کا نتیجہ تھا کہ فیض کا درس و تدریس کا ہنر خوب سیقل ہوگیا اور ان کا شمار اُن ماہر استادوں میں ہونے لگا جو صرف اپنے مضمون پر ہی عبور نہ رکھتے تھے بلکہ شاگردوں میں بھی مقبول تھے، کیونکہ اُن کے پڑھانے کا انداز بہت ہی دلپذیر ہوتا تھا۔ وہ طلبا کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے بات چیت کرتے اور اپنی علمی فضیلت جھاڑنے کی ہرگز کوشش نہ کرتے۔

فیض نے 1935ء سے 1940ء کے درمیان کم و بیش 6 برس ایم اے او کالج میں بطور انگریزی کے لیکچرار تدریسی فرائض انجام دیئے۔ اس عرصہ کے دوران کئی طلبا اُن کے شاگردوں میں تھے، جنہوں نے علم و ادب میں بہت نام پیدا کیا۔ فیض بتایا کرتے تھے کہ سعادت حسن منٹو بھی ان کے شاگردوں میں سے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: فیض احمد فیض سیریز (پہلا حصہ)

سعادت حسن کے علاوہ اس دور کے کئی اہم افراد فیض کے شاگرد رہے۔ مثلاً سیف الدین سیف، پروفیسر صدیق کلیم، نصر اللہ خاں، عارف عبدالمتین، امجد حسین، احمد راہی اور کئی دوسرے۔ ان سب لوگوں نے اپنے اپنے شعبوں میں خوب نام کمایا۔ ان سب کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں فیض کی درس و تدریس کا خاصا دخل رہا۔

سیف الدین سیف مرحوم کے دوست و احباب کہا کرتے تھے کہ سیف کی شاعری فیض کی معلمانہ کاوش کی مرہون منت ہے۔ مرحوم کا مجموعہ کلام ''خم کا کل'' کے بعض اشعار میں فیض کا رنگ عیاں ہے۔ اسی طرح فیض کے دوسرے شاگردوں جن میں سے کچھ نے شعر و ادب کی طرف رخ کیا، ان کی عملی و ادبی کاوشوں میں بھی فیض ہی کا فیض ہے۔ اور اس کا وہ خود اعتراف کرتے رہے ہیں۔

فیض کے ایک اور شاگرد صدیق کلیم نے بتایا کہ وہ ایم اے او کالج میں داخل ہوئے اور چار سال متواتر فیض سے انگریزی پڑھتے رہے۔ یہ فیض کے طریقہ تدریس کا نتیجہ تھا کہ وہ انگریزی زبان و ادب کی طرف راغب ہوئے اور پنجاب یونیورسٹی سے 1943ء میں ایم اے انگلش کیا۔ بعدازاں فیض ہی کی طرح ایم اے او کالج میں لیکچرار انگلش مقرر ہوئے۔ 1945ء تک رہاں پڑھاتے رہے۔

وہ پنجاب کے مختلف کالجوں میں تعینات رہنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ انگلش کے ہیڈ بنے اور پھر 1972ء سے 1974ء تک اس کالج کے پرنسپل رہے۔ صدیق کلیم بالآخر 1981ء میں بطور ڈائریکٹر Curriculum Research & Development Centre, Lahore سے ریٹائر ہوئے۔

ایم اے او کالج سے ملازمت ترک کرنے کے بعد فیض لاہور آگئے اور ہیلی کالج آف کامرس میں انگریزی پڑھانے پر مامور ہوگئے، جہاں وہ فوج میں اپنی تعیناتی یعنی 1942ء کے آخر تک کام کرتے رہے۔ ہیلی کالج میں بھارت کے سابق وزیر اعظم اندر کمار گجرال، فیض کے شاگردوں میں سے تھے۔ اندر کمار گجرال نے اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیا تھا کہ وہ فیض سے پڑھتے تھے۔ شاگرد ہونے کے ناتے ان سے دوستی کا رشتہ استوار ہوا۔ لکھتے ہیں:

''ایک دن خبر ملی کہ فیض امرتسر چھوڑ کر لاہور میں ہمارے ہی کالج میں انگریزی ادب کے لیکچرار مقرر ہوئے ہیں۔ حیرانگی ہوئی، کیونکہ ہمارا کالج سرکاری تھا اور پرنسپل انگریز تھے۔ لیکن کھلے دماغ کے آدمی تھے، ان کو تحریک آزادی کے ساتھ ہمدردی تھی، شاید اس لئے فیض کے چنائو میں ان کو پس و پیش نہ تھا۔ فیض سے تھوڑے ہی دنوں میں خوشگوار تعلق بن گیا۔''

فیض 1964ء میں لندن سے واپس پاکستان آئے تو ان کا قیام کراچی میں ہوا۔ یہاں انہیں عبداللہ ہارون کالج میں پرنسپل کا عہدہ تفویض ہوا، جس پر وہ تقریباً سات سال فائز رہے۔ اس عرصہ میں انہوں نے ایک اعلیٰ تعلیمی ناظم ہونے کا ثبوت دیا اور ایک غیر معروف تعلیمی ادارے کو ایک اعلیٰ اور منفرد درس گاہ میں تبدیل کر دیا۔

ایک انٹرویو میں فیض نے عبداللہ ہارون کالج کو ایک مثالی ادارہ بنانے کے بارے میں بتایا تھا ''کراچی میں بد امنی، کشیدگی اور ہڑتالوں وغیرہ کے قصے ہوتے رہتے تھے۔ طلباء اور اساتذہ میں بھی رابطہ نہیں تھا۔ ہم نے کوشش کی کہ اس امر کی اصلاح کی جائے۔ طلباء اور اساتذہ مل کر کام کریں، چنانچہ ہمارے کالج میں ایک مرتبہ بھی ہڑتال نہیں ہوئی، گورنمنٹ ادارے بند ہو جاتے تھے، مگر ہمارا کالج کھلا ہوتا تھا اور طالب علم پڑھائی کیلئے آتے تھے۔ اس کالج کا نقشہ دوسرے کالجز سے بالکل مختلف تھا۔ درسی کتابیں پڑھانے کے علاوہ اساتذہ اور طلبا کی بصیرت میں اضافے کیلئے لائبریری کو بہتر بنانے کی جانب توجہ دی گئی۔ اہل ثروت سے مدد لی گئی۔ اساتذہ سے اپنے اپنے موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھوائے گئے۔ میرے خیال میں محدود ذرائع کے باوجود یہ تجربہ کامیاب رہا۔''

(جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے