ماضی کی طرح اس بار بھی مصنوعی کٹھ پتلی چہروں کے ساتھ جمہوری نظام کی بساط بچھائی جارہی ہے۔ملک و ملت کا المیہ یہی ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر اسٹیبلشمنٹ نے اپنا ” کھیل ‘ ‘ سجایا ہوا ہے اور ہوس اقتدار میں نام نہاد جمہوری جماعتوں نے خود غیرجمہوری، غیرپارلیمانی طرزعمل اختیار کیا ہے جبکہ ووٹرز اور عام الناس میں بھی یہی روش مستحکم کردی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر تحفظات کے ساتھ مشروط فیصلہ دیا ہے۔ یہ امر پوری قوم کے لیے چشم کشاہونا چاہیے کہ جمہوریت، انتخابات، پارلیمانی نظام کی دعویدار خود اپنی پارٹی میں جمہوریت، اپنے دستور کی پاسداری اور انتخابات کے لیے کیا روش اختیار کرتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان رجسٹرڈ پارٹیوں کے دستور کے مطابق تمام جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن کو اتنی ہی سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے تو جمہوریت کی دعویدار قیادتوں اور پارٹیوں کا جمہوریت کے ساتھ طرزِ عمل بے نقاب ہوجائے گا۔اسٹیبلشمنٹ سیاسی پارٹیوںکو استعمال کرتی ہے اور خود پارٹیاں بھی فروخت ہونے اور آلہ کار بننے کے لیے تیار ہوجاتی ہیں،مسلم لیگ( ن )اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں خاندان اور وراثت پر چلنے والی پارٹیاں ہیں ،خودکو جمہوری کہنے والی پارٹیوں کے اندر الیکشن نہیں ہوتے ،وڈیرے اور جاگیردار ٹیکس نہیں دیتے لیکن عوام کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں ، ان سے ٹیکس وصول کرنے کے بجائے سارا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے ،آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے ظالمانہ اور عوام دشمن معاہدوں کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔ ادھر سانحہ نو مئی میں ملوث سیاستدان ایک ”پریس کانفرنس“ کے ذریعے ”باعزت بری“ ہو رہے ہیں۔
بلاشبہ ملک میں اس وقت انتخابات کے لیے شطرنج کی بساط بچھائی جا چکی ہے، الیکشن کمیشن بھی جھجکتے ہوئے ہی سہی لیکن اعلان کرچکا ہے، اور اب آٹھ فروری کو پاکستان کے عوام اپنے آنے والے حکمران کا فیصلہ کریں گے۔ آئین تو یہی کہتا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستانی عوام کی اکثریت کو کرنا ہے، لیکن کچھ فیصلے عوام اور سیاسی جماعتوں سے بالا بالا ہماری اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پرانے سیاسی چہروں کو نئے رنگ کے ساتھ دوبارہ اقتدار کے کھیل میں شریک کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے سجائے سیاسی اسٹیج پر ایک بار پھر سے کٹھ پتلی تماشا شروع ہو گیا ہے ۔اس سے کچھ لوگوں کی خواہشات تو پوری یو جائیں گی لیکن پاکستان میں حقیقی جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکے گی۔جو مصنوعی نظام قوم پر مسلط کیا جارہا ہے اس سے ملکی مسائل حل ہونے والے نہیں۔ انتخابی نتائج جو بھی ہوں یا جس کی بھی حکومت بنائی جائے امکان یہی ہے کہ محاذ آرائی اور ٹکراﺅ کا کھیل جاری رہے گا۔ اسی طرح اگر انتخابات سے پہلے انتخابات کے بارے میں کچھ بھی طے نہیںہوتا تو انتخابات کے امکانات پر بھی سوالیہ نشان کھڑے ہوسکتے ہیں۔ اس وقت اصل لڑائی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے، اور دونوں میں کچھ طے ہوئے بغیر مستقبل کا سیاسی منظرنامہ یا استحکام کی سیاست آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہماری قومی سیاست کا کھیل بند گلی میں داخل ہوگیا ہے اور ہم باہر نکلنے کی کوشش تو کررہے ہیں مگر حکمت عملی وہی پرانی ہے۔بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ ، عدلیہ ، بیورو کریسی ، سیاستدانوں اور میڈیا مالکان کی مفاد پرستی پر مبنی پالیسیوں نے پاکستان کو تباہی و بربادی کی تصویر بنا دیا ہے ۔
عام انتخابات کی تاریخ پر اتفاق اور اعلان کے بعد عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے ذرائع ابلاغ کو خبردار بھی کیا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ عدالت عظمیٰ کے سربراہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی تو کرنے کا حکم صادر فرما سکتے ہیں لیکن پاکستان کا آئین توڑنے والے جرنیلوں کے خلاف کارروائی کرنے سے قاضر ہیں۔ حالانکہ پاکستان کا آئین عدالت عظمیٰ سے انصاف مانگ رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے سربراہ کے حکم کے باوجود اب بھی بیش تر حلقوں میں شکوک موجود ہیں۔ اس لیے کہ جہاں پر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں اس پر دباﺅ برقرار رکھنے والی کوئی طاقت پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر موجود نہیں ہے۔ لیکن چونکہ مقتدرہ نے اپنے سیاسی چہرے کے لیے اپنے پرانے اور تجربہ کار آلہ کاروں سے نئی ”ڈیل“ کرلی ہے۔ یعنی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی جلاوطنی، سزاﺅں، نااہلیت اور سیاسی مقدمات کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ میاں نواز شریف نے سیاسی سرگرمیاں شروع کردی ہیں، میاں نواز شریف کے سیاسی حریف عمران خان ایوان وزیراعظم سے جیل پہنچ گئے ہیں۔ ان کی جماعت میں توڑ پھوڑ کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ فیصلہ ساز مقتدرہ کو اطمینان ہوگیا ہے کہ انتخابات میں ”مثبت نتائج“ حاصل ہوجائیں گے۔ لیکن موجودہ منظرنامہ اس بات کی تصدیق کرنے میں ناکام ہے کہ انتخابات کے بعد بھی سیاسی بحران ختم ہوجائے گا۔ اس لیے کہ پاکستان میں سیاسی بحران کے اسباب کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے۔
دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ امور مملکت اور نظام حکومت کی بنیاد آئین ہے جو ریاست کے اداروں کے اختیار اور حدود کا تعین کرتا ہے، لیکن پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ آئین فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں مسلسل پامال ہوتا رہا ہے جب آئین پر عمل نہیں ہوگا تو قانون کی حکمرانی کیسے قائم ہوگی۔ آئین اور قانون کی پامالی نے جرائم میں ملوث لوگوں کو بھی طبقہ حکمرانی کا حصہ بنادیا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ پاکستان کے قومی مسائل کے حل کی اہلیت رکھنے والی قیادت سے ملک محروم ہے۔ ملک میں اس وقت نگراں حکومت قائم ہے۔ نئے انتخابات ہونے ہیں، سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو قوم کے سامنے ایسا منشور اور پروگرام پیش کرنا ہے جس کو دیکھ کر رائے دہندگان مستقبل کے حکمرانوں کا فیصلہ کرسکیں جاری بحران کا جائزہ لیں تو سب سے بڑا چیلنج بڑھتی ہوئی غربت ہے، غربت کی لکیر سے نیچے جانے والوں کی رفتار میں تیزی آی ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں عام آدمی کی آمدنی میں کمی اور قیمتوں میں اضافے کا تناسب اتنا بڑھ گیا ہے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں غربت کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔ لیکن ماضی کے قلیل ترین حصے میں مہنگائی میں جو اضافہ ہوا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس اضافے کی رفتار میں اضافہ کیسے روکا جائے گا، اس کا کوئی منصوبہ کسی بھی سیاسی جماعت اور کسی بھی طبقے کے پاس موجود نہیں ہے۔
میاں نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ حالیہ ڈیل نے ان کی سیاست کو عملاً ایک بار پھر ننگا کردیا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہورہا، نوازشریف چوتھی بار اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس ڈیل میں وہ کامیاب ہوتے ہیں یا ان کے بھائی شہبازشریف کو کامیابی ملتی ہے یہ الگ بات ہے، مگر کہا یہی جارہا ہے کہ اگلے اقتدار کے لیے شریف خاندان پر ”بڑوں“ کا اتفاق ہوگیا ہے۔ نوازشریف نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز ماشااللہ بلوچستان اور ’باپ‘ پارٹی سے کیا ہے۔ یہ ’باپ‘ پارٹی وہی ہے جو ان کی صوبائی حکومت کے خاتمے اور پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے میں پیش پیش رہی، اور نوازشریف، مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کا ’باپ‘ پارٹی کے خلاف بیانیہ موجود تھا کہ ’باپ‘ اپنے باپ کے حکم پر کام کرتی ہے،۔اس سے سیاسی سمجھوتے کو اقتدار کی سیاست کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔یہ وہی سیاسی ڈھٹائی ہے جو پاکستان کی سیاست میں کئی دہائیوں سے جاری ہے اور سیاست دانوں سمیت سیاسی جماعتوں اور سیاست سے ہی جڑے بڑے ناموں کو اس پر کوئی شرم بھی نہیں۔
یقینی طور پر نوازشریف کا بلوچستان سے انتخابی مہم کا آغاز ظاہر کرتا ہے کہ وہ سیاسی سطح پر کہاں کھڑے ہیں اورکس کے ایجنڈے پر وہ بلوچستان گئے تھے۔ بڑے بڑے سیاسی برجوں، یا برادری کی سیاست کے سکہ بند کھلاڑیوں کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت یا ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، جے یو آئی، پختون خوا ملّی عوامی پارٹی، مسلم لیگ (ق)، استحکام پاکستان پارٹی یا پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کی نوازشریف سے محبت بھی ظاہر کرتی ہے کہ ان تمام کو کہا گیا ہے کہ اقتدارکی بندر بانٹ میں انہیں بھی نوازشریف یا شریف خاندان کے ساتھ حصے دار بنایا جائے گا۔ایک بار پھر نوازشریف کو قومی سیاست میں مسیحا کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، اور اِس بار ا ±ن کا سیاسی چورن معیشت کی بحالی، اور سیاسی دشمنی کے برعکس ایجنڈا ہے۔ لیکن یہ معیشت کیسے بحال اور مضبوط ہوگی اورکیسے سیاسی دشمنی کا کھیل ختم ہوگا اس پر کوئی بات بھی واضح نہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ نیا چورن بھی نئے سیاسی نعروں اور جذباتیت کے ساتھ قومی سیاست پر غالب رہے گا۔کیونکہ نوازشریف کے سب سے بڑے سیاسی مخالف عمران خان کو تو جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور ان کی جماعت پر عملی طور پر پابندی ہے۔ وہ کوئی جلسہ، جلوس یا کسی بھی قسم کی کارنر میٹنگ یا پارٹی کی داخلی میٹنگ بھی کرنے کی مجاز نہیں۔ عملاً اس پر انتخابی دروازے بند کردیے گئے ہیں اورکہا جارہا ہے کہ یہ جماعت جب تک عمران خان سے دست برداری کا اعلان نہیں کرتی اسے آزادانہ بنیادوں پر سیاست کرنے اور انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
پاکستان کی سیاست، جمہوریت عملاً یرغمال ہے اور ہم آج بھی حقیقی جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی جھلک دینے کے خواہش مند ہیں۔ لیکن جمہوری قوتوں کا مقدمہ مضبوط ہونے کے بجائے تسلسل کے ساتھ کمزور ہورہا ہے، یہی وجہ ہے کہ محض سیاست اور جمہوریت ہی کمزور نہیں ہورہی ہیں بلکہ ہمارے دیگر مسائل بھی بڑھتے جارہے ہیں۔عمومی طور پر جمہوریت میں انتخابات کی حیثیت ایک کنجی کی مانند ہوتی ہے۔ انتخابات میں عوامی رائے عامہ یا ووٹ کو بنیاد بناکر نئی منتخب حکومتوں کا فیصلہ ہوتا ہے۔ سیاسی اورجمہوری معاشروں میں لوگوں کا جمہوری نظام پر اعتماد ہوتا ہے اور ان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنی مرضی اور منشا کے ساتھ حکومت بناسکتے ہیں اور ایسے لوگوں کو منتخب کرسکتے ہیں جو ا ±ن کی خواہشات کی مکمل عکاسی کرتے ہوں۔ لیکن ہمارے جیسے معاشروں میں ووٹ کی عزت یا ووٹ کی بنیاد پر سیاسی تبدیلی کا عمل پہلے بھی کمزور تھا اور آج بھی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کمزور وکٹ پر کھڑے ہیں۔ اگرچہ ہمارے ہاں انتخابات کی تاریخ کسی شاندار ماضی کی عکاسی نہیں کرتی۔ یہاں 1970ءسے 2018ءتک کے انتخابات کی کہانی میں بنیادی نوعیت کا سوال ان کی شفافیت کا ہے۔ انتخابات کا ہونا اوّل شرط، لیکن انتخابات کا منصفانہ اور شفاف ہونا دوسری اہم شرط ہوتی ہے۔ لیکن ہماری سیاست میں انتخابات کے نام پر سیاسی ڈکیتی کا کھیل پہلے بھی جاری تھا اور آج بھی جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں عوامی مینڈیٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ طاقت ور طبقوں کی سیاسی خوشنودی یا سیاسی مفادات کی بنیاد پر اقتدار کے کھیل کا سیاسی دربار سجایا جاتا ہے۔
سیاسی انجینئرنگ، سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ اور نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل سمیت سارا پرانا کھیل آج بھی کھیلا جارہا ہے، حالانکہ اِس وقت ہمیں جن داخلی، علاقائی اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہمیں کسی نہ کسی شکل میں ایک مضبوط سیاسی نظام کی طرف پیش رفت کرنی چاہیے۔ کیونکہ جس انداز سے بھارت اور افغانستان کے معاملات ہمارے حق میں نہیں جارہے اور جیسے سیاسی اور معاشی حالات ہیں اس کا تو یہی تقاضا ہے کہ ہر طرح کی سیاسی مہم جوئی سے گریز کیا جائے۔ لیکن لگتا ہے کہ ہم سدھرنے کے لیے تیار نہیں اور وہی پرانا کھیل جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اِس وقت اگر ہم کو سیاسی اور معاشی بحران سے نکلنا ہے تو اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ سیاسی نظام کی مضبوطی، منصفانہ اور شفاف انتخابات اور آئین و قانون کی بالادستی سمیت معیشت کو بنیاد بناکر عملاً سیاسی مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔ ایک دوسرے کو نیچے گرانے اور سیاسی دشمنی کے کھیل سے اجتناب کریں اور کسی کو اگر کمزور کرنا ہے تو اس کے لیے بھی طاقت کے بجائے سیاسی راستہ ہی اختیار کیا جائے۔ مفاہمت محض سیاسی جماعتوں تک محدود نہ ہو بلکہ اس میں دیگر فریقین کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ایک ایسا راستہ اختیار کیا جاسکے جو سب کے مفاد میں ہو۔
عمران خان کا مقابلہ طاقت سے نہیں ہوگا، اس کے لیے بھی سیاسی حکمت عملی درکار ہے۔ اسی طرح عمران خان دشمنی میں اس حد تک آگے نہ جایا جائے کہ پورے انتخابی نظام کی صحت کو ہی خراب کردیا جائے اور اس کے نتیجے میں قومی سطح پر ایک بڑے ردعمل کا سب کو سامنا کرنا پڑے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ ماضی کی غلطیوں سے سیکھے۔عمومی طور پر ہماری اسٹیبلشمنٹ ہر بحران میں یہی کہتی ہے کہ ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ہے اور ہم مستقبل میں سیاسی عمل میں کسی بھی سطح پر مداخلت نہیں کریں گے۔ لیکن عمی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ہمارے ملک میں حکمرانی کرنے کے لیے جتنے اداروں کی تشکیل کی گئی ہے وہ نو آبادیاتی دور کا ورثہ ہے۔ بیوروکریسی، فوج، پولیس، عدلیہ، سیاسی ادارے سب انگریزوں کے دور میں تشکیل دیے گئے ہیں، یہاں تک کے عالمی نمائندگی کا شعبہ انگریزوں کے وفاداروں پر مشتمل ہے۔ جنہیں سامراجی حکومت کی وفاداری اور ضمیر فروشی کے عوض جاگیریں دی گئی تھیں۔ اب وہی طبقہ ہمارے نظام جمہوریت و انتخابات میں ”الیکٹ ایبلز“ کہلاتا ہے، اسی طبقے جمہوریت اور پارلیمان کو تماشا بنادیا ہے۔ اس طرز حکمرانی نے ہر شعبے پر مافیاﺅں کا تسلط قائم کردیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف دولت مندوں کی دولت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے اور ددسری طرف غربت عذاب بن گئی ہے۔
نوازشریف کا سیاست میں دوبارہ آنا اچھی بات ہے اور ان کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ سیاسی طور پر سرگرم ہوں، انتخاب لڑیں اور اگر واقعی لوگ ان کو ووٹ دیتے ہیں تو انہیں اقتدار بھی ملنا چاہیے۔ لیکن اگر نوازشریف کو بھی دوبارہ مصنوعی طور پر سامنے لانا ہے اور ان کی محبت یا عمران خان کی دشمنی میں سب کو پیچھے چھوڑنا ہے تو پھر اس کھیل کے نتیجے میں حالات درست نہیں بلکہ مزید خراب ہوں گے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہمارے طاقت سے جڑے ادارے اور سیاسی فریقین سیاسی دشمنی کے کھیل سے باہر نکلیں اور ایسا کچھ کرنے کی کوشش کریں جو سیاست اور جمہوریت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرسکے۔ یہ مت بھولیں کہ اس وقت عوام میں بہت حد تک ردعمل کا غلبہ ہے اور لوگوں کے سامنے ہمارا مجموعی نظام بری طرح بے نقاب ہوگیا ہے۔ ایسے میں عوام کی سطح پر جو غصہ ہے اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حالات ماضی سے بہت زیادہ مختلف ہیں، ایسے میں روایتی طور طریقوں کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھا جاسکے گا۔ جو لوگ بھی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان ٹکراﺅ کی حکمت عملی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں انہیں یقینی طور پر وقتی کامیابی مل سکتی ہے لیکن مستقبل کے تناظر میں یہ غیر دانش مندانہ فیصلہ ہوگا جس کے سنگین نتائج کا ہمیں سامنا کرنا ہوگا۔ کیونکہ اگر ہمیں انتخابات کا کھیل سازشی بنیاد پر سجانا ہے تو ان انتخابات کی ساکھ کیا ہوگی اور کون ان کے نتائج کو تسلیم کرے گا؟ یقیناً ہم عملی طور پر ایک نئے بحران کو جنم دے رہے ہیں اور اس کا ذمہ دار کوئی ایک فریق نہیں بلکہ سبھی ہوں گے۔ ہمیں دنیا کے تجربات سے سیکھنا چاہیے کہ کیسے وہ اپنے سیاسی اور معاشی استحکام کو مضبوط بناتے ہیں، اور ہر ا ±س عمل سے گریز کیا جانا چاہیے جو ہمیں خرابی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ لوگوں کو یہ حق دے دیں کہ وہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ہی اپنے ووٹ کے ذریعے اقتدار کا فیصلہ کرسکیں۔ یہی جمہوریت ہے اور اسی کی بنیاد پر جمہوری عمل کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ ایسی حکمت عملی اختیار کرنا جو شفافیت کے خلاف ہو، کسی بھی طور پر ملک وقوم کے حق میں نہیں جائے گی۔