عتیق میر کے مطابق 2020ء کاروباری لحاظ سے ملکی تاریخ کا بدترین عید سیل سیزن رہا۔ انہوں نے کہا کہ دو ماہ لاک ڈاؤن کے بعد کراچی کی مارکٹیں 11مئی تا 23 مئی تین تعطیلات کے باعث صرف 10 دن کھل سکیں۔ تپتی دھوپ میں بھی حکومت سندھ نے افطار کے بعد بازار کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ دکانیں 4 بجے بند کرنے کی پابندی عید سے ایک روز قبل تک برقرار رہی۔
آل کراچی تاجر اتحاد کی جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس عید سیل کا تخمینہ 35ارب روپے، جبکہ رواں سال فروخت کا ہدف 10ارب روپے سے بھی کم رہا۔ دو ماہ کی کاروباری بندش اور لاک ڈاؤن سے عوام کی قوت خرید شدید متاثر ہوئی، بیشتر والدین نے استطاعت نہ ہونے کے سبب عید کی خریداری اپنے بچوں تک محدود کردی۔ 80 فیصد خریداری بچوں کے ملبوسات، جوتے، پرس، کھلونے، ہوزری وغیرہ کی مد میں کی گئی۔
عتیق میر نے کہا کہ عید کے حوالے سے شناخت رکھنے والی اہم مارکٹوں میں توقعات کے برعکس خریداری نہ ہوسکی، لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد مارکیٹوں میں امڈ آنے والا خریداروں کا ریلا مصنوعی ثابت ہوا۔ بیشتر بازاروں میں نظر آنے والی گہما گہمی ونڈو شاپنگ ثابت ہوئی، قیمتوں میں اوسطاً 20 تا 25فیصد اضافے سے خریداروں کی رہی سہی قوتِ خرید بھی ختم ہوگئی۔
انہوں نے موجودہ صورتحال کو ملکی معیشت اور تجارت کیلئے تباہ کُن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس انسانی صحت کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو بھی نگل رہا ہے، سال کے سب سے بڑے سیل سیزن میں بھی دو ماہ لاک ڈاؤن کے نقصانات کا ازالہ نہ ہوسکا۔ تجارتی مراکز میں چہل پہل کا سب سے زیادہ فائدہ ٹریفک پولیس کو ہوا، کاغذات کی جانچ پڑتال کے بہانے رشوت ستانیوں کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہا۔ حفاظتی پولیس نے اسنیپ چیکنگ کی آڑ میں جی بھر کر عیدی بنائی، بیشتر دکانوں میں اسٹاک کیا گیا60 فیصد سے زائد مال فروخت نہ ہوسکا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں فروخت میں مجموعی طور پر 70 فیصد تک کمی رہی۔ تاجروں کو عید بعد کاریگروں اور کارخانے داروں کو رقوم کی ادائیگی کے لالے پڑگئے ہیں۔ بڑی مارکیٹوں میں لگائی جانے والی رعایتی سیل بھی خریداروں کو متوجہ نہ کرسکی۔ البتہ مارکٹوں میں درآمدی اشیاء کے اسٹاک کم ہونے سے مقامی مصنوعات کی فروخت میں تیزی رہی۔ شہروں کے مابین ٹرانسپورٹ بند ہونے سے سامان کی فراہمی بھی متاثر ہوئی۔