حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ (جن کی کافی تعداد پہلے سے ہی اسلام قبول کرچکی تھی) دو تہوار منایا کرتے تھے، اور ان میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔
رسول اللہؐ نے اس سے پوچھا کہ یہ دو دن جو تم مناتے ہو ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ (یعنی تمہارے ان تہواروں کی کیا اصلیت اور تاریخ ہے؟) انہوں نے عرض کیا کہ ہم جاہلیت میں (یعنی) اسلام سے پہلے یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔ (بس وہی رواج اب تک چل رہا ہے)
رسول اللہؐ نے فرمایا:
اِنِّ اللِّہَ قَدْ أَبدَلَکُمْ بِھِمَا خَیْرًا مِنْھُمَا یَوْمَ الَٔاضحَی وَیَوْمَ الفِطرِ
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دو تہواروں کے بدلہ میں ان سے بہتر دو دن تمہارے لئے مقرر کردیئے ہیں (اب وہی تمہارے قومی اور مذہبی تہوار ہیں) یوم عید الاضحیٰ اور یوم عید الفطر۔ (سنن ابی داؤد: ۱/۴۴۱)
عیدوں کے حوالے سے حضور اقدسؐ نے مدینہ منورہ میں ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے دو عیدیں عطا فرمائی ہیں (ابو داؤد)۔ اب تیسری کوئی عید نہیں، چوتھی کوئی عید نہیں، قیامت تک مسلمانوں کی عیدیں دو ہی رہیں گی۔۔۔۔۔ عید الفطر ۔۔۔۔۔ عید الاضحیٰ۔
عیدین اور آقاؐ کا طرز عمل
حضرت جابر بن سمرؓ سے روایت ہے: میں نے رسولؐ کے ساتھ عیدین کی نماز ایک یا دو دفعہ نہیں بلکہ بہت دفعہ پڑھی ہے۔ ہمیشہ بغیر اذان اور بغیر اقامت کے۔ (صحیح مسلم ۳/۱۹)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے: رسولؐ نے عید الفطر کے دن دو رکعت نماز پڑھی، اور اس سے پہلے یا بعد آپ نے کوئی نفلی نماز نہیں پڑھی۔ (بخاری ۲/۲۳، مسلم ۳/۲۱)
حضرت جندبؓ سے روایت ہے: رسولؐ عید الفطر کی نماز ہم لوگوں کو ایسے وقت پڑھاتے تھے کہ آفتاب بقدر دو نیزے کے بلند ہوتا تھا اور عید الاضحیٰ کی نماز ایسے وقت پڑھاتے تھے کہ آفتاب بقدر ایک نیزہ کے ہوتا تھا۔ (التلخیص الحبیر: ۲/۱۹۶)
حضرت بریدہؓ سے روایت ہے: رسول اللہؐ کا معمول یہ تھا کہ آپ عید الفطر کی نماز کیلئے کچھ کھا کے تشریف لے جاتے تھے اور عید الاضحیٰ کے دن نماز پڑھنے تک کچھ نہیں کھاتے تھے۔ (ترمذی: ۲/۴۳۷، مشکوۃ: ۱/۳۲۳)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ عید الفطر کے دن نماز کو تشریف لے جانے سے پہلے آپؐ چند کھجوریں تناول فرماتے تھے اور طاق عدد میں تناول فرماتے تھے۔ (بخاری)