آنحضرتؐ نے جمادی الاول 8ھ میں روم کی افواج قاہرہ کے مقابلے کیلئے تیس ہزار کا ایک لشکر شام کی طرف روانہ فرمایا تھا، جو مُوتہ کے مقام پر دشمن سے نبرد آزما ہوا۔ دشمن کی تعداد دو لاکھ تھی۔
اس کے مقابلے میں مسلمان فوج کی تعداد 30 ہزار تھی، جس میں 10 ہزار گھڑ سوار شامل تھے۔ لشکر اسلام نے بے جگری سے مقابلہ کیا۔ تین سپہ سالار اور نو مجاہد شہید ہوئے۔ مورخین نے دشمن کے ہلاک شدگان کی تعداد نہیں بتائی ہے۔
اعداد کی کثرتِ تعداد کے باعث جنگ فیصلہ کن نہیں ہوئی۔ چونکہ شام سے لوگ تجارت کیلئے مدینہ آتے تھے لہٰذا انہوں نے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ رومی مسلمانوں پر حملے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ آنحضرتؐ کو خبر ملی تو 30 ہزار کا لشکر تیار کرکے آپؐ اواخر رجب 9ھ میں شام کی طرف روانہ ہوئے۔
مدینہ میں حضرت محمدؓ بن مسلمہ کو اپنا نائب مقرر کیا۔ تبوک میں خیمہ زن ہوئے۔ دشمن مقابلے پر نہیں آیا۔ آپؐ نے ایک دستہ دُومتہ الجندل کی طرف بھیجا۔ ایک نصرانی ہلاک ہوا اور دومتہ الجندل کا والی اکیدر گرفتار ہوکر آیا۔ اس نے جزیہ دینا قبول کرلیا۔
آنحضرتؐ تبوک میں 20 روز قیام کے بعد اوائل رمضان 9ھ میں مدینہ واپس تشریف لائے۔ یہ آخری جنگ تھی جس میں حضورؐ نے بہ نفس نفیس شرکت فرمائی، لیکن وہ حالتِ جنگ جو رمضان 1ھ ہی میں شروع ہو چکی تھی، اس کے بعد بھی جاری رہی۔
وصالِ نبوی تک مسلمانوں کی فوجیں مختلف اطراف میں مشرکین کی سرکوبی کیلئے روانہ ہوتی رہیں اور پھر وفات سے چند روز پہلے آپؐ نے حضرت اسامہؓ کی قیادت میں ایک لشکر رومیوں سے جہاد کیلئے تیار کیا، جو حضرت ابو بکر صدیقؓ کے عہد خلافت میں روانہ ہوا۔
اس غزوہ میں مسلمانوں کو ظاہری فتح کے بجائے معنوی فتح حاصل ہوئی تھی اور وہ اس طرح کہ انہوں نے وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت یعنی روم کی فوج کو خوف زدہ کر دیا تھا۔ غزوۂ تبوک کے مقاصد کی تکمیل ہوئی اور بت پرستی کے تمام مظاہر کا مکمل صفایا ہو گیا اور جزیرہ عرب کی انتہائی دور دراز اطراف میں اسلام کا جھنڈا لہرا گیا۔
تبوک مدینہ اور شام کے درمیان ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ سے شمال کی جانب تقریباً چھ سو میل یعنی تقریباً 950 کلو میٹر دور ہے۔ راستے میں دور دور تک چٹیل میدان تھے، جہاں کبھی نافرمان قومیں آباد تھیں۔ دوران مسافت مسلمان لشکر کو خوراک اور پانی کے شدید قلت کا سامنا رہا۔ چنانچہ ایک موقع پر اصحابؓ نے اونٹ کو ذبخ کر کے ان کے جسم میں موجود تَری سے پیاس بجھائی۔
غزوۂ تبوک بہت سے زاویوں سے اسلام اور اسلامی حکومت کے لئے مفید ثابت ہوا۔ منافقین کی سازشیں اور ان کے چہرے بے نقاب ہوئے تو وہیں بیرونی حکومتوں نے اسلام کا لوہا مانا اور اب دارالحکومت یعنی مدینہ منورہ خارجی حملوں سے محفوظ ہوگیا۔
سعودی اخبار 24 کے مطابق اسلامی تاریخ کے نشانات آج بھی تبوک میں موجود ہیں۔ یہاں قدیم مساجد اور قلعے اس کا روشن ثبوت ہیں۔ تبوک کی مسجد پیغمبر اسلامؐ کی آمد کے واقعے کا پتہ دے رہی ہے۔ پیغمبر اسلام جب مدینہ منورہ سے سخت گرمی کے موسم میں طویل سفر طے کرکے سرحد پار کے دشمنوں سے نمٹنے کے لیے یہاں پہنچے تھے تو اس وقت انہوں نے اس مسجد کی بنیاد رکھی تھی۔
تاریخی اسکالر عبداللہ العمرانی کا کہنا ہے کہ یہاں جو مسجد واقع ہے وہ کئی ناموں سے جانی جاتی ہے۔ اس کے نمایاں نام مسجد رسول اللہ، مسجد التوبہ، مسجد الاثری، مسجد تبوک، جامع مسجد تبوک، البلدۃ جامع مسجد اور بڑی جامع مسجد ہیں۔
العمرانی نے بتایا کہ شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے 27 شعبان 1393ھ کو تبوک کا سفر کیا تھا۔ اس موقع پر مقامی لوگوں نے انہیں بتایا کہ یہاں شہر کے وسط میں حضور اقدسؐ سے منسوب ایک مسجد ہے۔ انہوں نے وہاں دو رکعت نماز ادا کی اور قلبی سکون محسوس کرنے پر مسجد کو ازسر نو تعمیر کرنے کا حکم جاری کیا۔
رپورٹ کے مطابق تبوک میں 1400 برس قدیم یہ مسجد تعمیر نو کے بعد نئی شکل و صورت میں سامنے آگئی ہے۔ بعض ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ مسجد رسول اللہ اموی، حکومت میں خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے دور میں بھی تعمیر کی گئی تھی۔ اب تزئین و آرائش کے بعد مسجد میں بیک وقت ہزاروں افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔