بخاری شریف میں حدیث ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو کوئی مشکل پیش آئے تو دو رکعتیں پڑھے، پھر کہے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ
ترجمہ:
''اے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کی بناء پر خیر کا طالب ہوں اور تیری قدرت چاہتا ہوں، تجھ سے فضل عظیم مانگتا ہوں، تجھی کو قدرت ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا اور تو جانتا ہے میں نہیں جانتا اور تو غیب کی باتوں کو خوب جانتا ہے۔ الہیٰ! تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین اور معاش اور انجام کار میں میرے لئے بہتر ہے تو اسے میرے لئے مقدر کر! اور میرے لئے میسر کر! پھر اسے میرے لئے مبارک کر! اور اگر تو جانتا ہے کہ وہ میرے لئے میرے دین اور معاش اور انجام کار میں برا ہے تو اسے مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لئے بھلائی مقدر کر، جیسے بحی ہو اور مجھے اس پر راضی رکھ۔''
واضح رہے کہ استخارہ کا لفظ خیر (خ ی ر) سے نکلا ہے، جس کا مفہوم ہے کسی امر میں اللہ سے خیر و بھلائی کا پہلو طلب کرنا۔ ایک مسلمان کے لئے اپنے تمام معاملات میں استخارہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہؐ نے صحابۂ کرامؓ کو بڑی سختی اور تاکید کے ساتھ استخارہ کی تعلیم دی اور امت کے لئے بھی استخارہ کو پسند فرمایا۔
یہی وجہ ہے کہ استخارے پر تقریباً تمام مسلمان یقین رکھتے ہیں اور اس کے عامل ہیں۔ شادی بیاہ، نئے کاروبار کی ابتدا اور دیگر اہم زندگی کے معاملات میں استخارہ کرنا ناگریز سمجھتے ہیں۔ تاہم بہت سے لوگوں نے اسے قسمت معلوم کرنے کا ایک ذریعہ بھی بنانے کی کوشش بھی کی ہے اور بہت سی باتیں ایسی شامل کر دی ہیں، جن کے بارے میں کوئی سند نہیں۔
مثلاً بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ استخارہ کیلئے مسجد میں جانا ضروری ہے۔ یا یہ کہ استخارہ رات کو سوتے وقت کرنا چاہیئے اور پھر جو خواب آئے وہ امر ربّی ہے۔ تاہم اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان تقریباً پر کام کیلئے استخارہ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔
اسلام سے پہلے بھی استخارے کا رواج تھا۔ اسلام سے قبل لوگ جاہلانہ انداز سے تیروں، پرندوں اور بتوں سے فال جیسی مشرکانہ رسومات سے اپنے کاموں میں غیبی رائے اور رہنمائی لیا کرتے تھے۔
اسلام کے آنے کے بعد ان تمام مشرکانہ رسومات کا قلع قمع کر دیا گیا اور انسانی ضرورت کے پیشِ نظر ’’استخارہ‘‘ کی ترغیب دی گئی جس میں مشرکانہ رسومات کے بجائے توحید کی بنیاد پر نماز اور دعا کا خوبصورت طریقہ سکھایا گیا۔
آنحضرتؐ بھی استخارہ کیا کرتے تھے اور آپؐ نے دعائے استخارہ خود مسلمانوں کو سکھایا۔ طبری اور ابن سعد نے اس کا ذکر کیا ہے۔ اکثر خلفاء، محدثین اور آئمہ کرام بھی استخارہ کیا کرتے تھے۔ اب بعض لوگوں نے اس کی کئی اور صورتیں بھی پیدا کر دی ہیں۔ مثلاً استخارے کے بعد خواب دیکھنا، قرآن مجید سے فال لینا، تسبیح کے دانوں سے فال لینا، نیز رمل اور نجوم وغیرہ۔