اس کے علاوہ دودھ جسم کو پروٹین کی بھی مقدار فراہم کرتا ہے اور جسم کی حیاتیاتی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ایک تحقیق میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ دودھ کا ایک گلاس روزانہ استعمال کرنے پر جسم کی 44 فیصد حیاتیاتی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں۔
دودھ ایک غذائیت بخش غذا ہے مگر جب وہ لالچی لوگوں کے ہاتھ لگی‘ تو موت بانٹنے والی ہر کارہ بن گئی۔اس وقت ملک بھر میں دودھ کی شکل میں سفید زہر کی سر عام فروخت جاری۔مضر صحت دودھ پینے اور مکھن استعمال کرنے سے شہری موذی امراض میں مبتلا ہونے لگے ہیں،چاروں صوبوں کی فوڈ اتھارٹیز کے افسران واہلکاروں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
دودھ میں پانی ملانا ملاوٹ کا قدیم ترین طریقہ ہے۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ دودھ کی مقدار بڑھ جائے مگر پانی ملانے سے دودھ کی غذائیت کم ہو جاتی ہے، اگر پانی آلودہ ہے تو وہ دودھ کو مضر صحت بھی بنا دیتا ہے۔ سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ دودھ میں ملاوٹ کے بھی نت نئے طریقے سامنے آ گئے۔ حتیٰ کہ حیوان نما انسان کیمیائی مادوں سے مصنوعی دودھ بنا کر گاہکوں کو زہر پلانے لگے ہیں۔
وطن عزیز کے خصوصاً شہروں میں ایسا مضر صحت دودھ عام ملتا ہے۔ حکومتیں وقتاً فوقتاً اس لعنت کے خلاف مہم چلاتی ہیں مگر وہ اسے کلی طور پر ختم نہیں کر سکیں۔ قانون کی حکمرانی نہ ہونے کا نتیجہ خراب دودھ پی کر عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ دودھ کو دیر تک محفوظ کرنے کی خاطر پہلے پہل پاکستانی گوالوں نے کیمیائی مادوں کا استعمال شروع کیا۔
دراصل گوالوں کی اکثریت علی الصبح دودھ نکالتی ہے ، یہ دودھ پھر چند گھنٹے بعد شہروں کو سپلائی ہوتا ہے۔ چناںچہ دودھ کو خراب ہونے سے بچانے اور محفوظ رکھنے کیلئے گوالے اس میں جراثیم کش کیمیکل مثلاً ہائیڈروجن پیرا آکسائڈ، فارملین، پنسلین،بال صفا پاﺅڈر، بوریکس وغیرہ ملانے لگے۔
ٹھنڈا دودھ جلد خراب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں جراثیم پیدا ہوتے ہیں چناںچہ دودھ تادیر ٹھنڈا رکھنے کی خاطر اس میں برف، یوریا کھاد،ایمونیم سلفیٹ وغیرہ کی بھی آمیزش ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ گوالوں کو علم ہوا کہ کھانے کا سوڈا (بیکنگ سوڈا) اور کاسٹک سوڈا بھی دودھ کو تادیر محفوظ رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ کیمیکل بھی ملائے جانے لگے آہستہ آہستہ دودھ میںکئی اشیاء کی ملاوٹ معمول بن گیا۔
”ملک ٹیسٹنگ لیبارٹری“ ذرائع کے مطابق دودھ میں فارمولین نامی کیمیکل بھی شامل کیا جا رہا ہے،یہ کیمیکل لاشوں کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ دودھ میں اس کو ملانے کا مقصد اسے زیادہ عرصے تک خراب ہونے سے بچانا ہے۔
ذرائع کا یہ کہنا ہے مختلف ممالک سے آنے والے پام آئل میں 15 قسم کے کیمیکل ڈال کر اس کو مکھن کی شکل دی جاتی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس مکھن کو تمام بیکری جن میں بہت مشہور اور برانڈزہونے کا دعویٰ کرنے والی بیکری ہو یا بڑی بڑی مٹھائی کی دکانیں، یہ سب اسی مکھن کو استعمال کر رہے ہیں۔
اس کے استعمال سے سب سے پہلے انسانی جسم پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس میں معدے کی بیماریاں سر فہرست اور اس کے بعد جگر اور گردے کے امراض اور اس کے علاوہ دماغی کینسر بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ اس مکھن کے علاوہ شہر میں ڈیری کی دکانوں پر جو کیمیکل شدہ دودھ فروخت ہو رہا ہے، وہ بھی اسی طرح کی امراض کو پھیلانے میں مدد گار ہو رہا ہے۔
اس کے استعمال سے بعض ایسی بیماریاں بھی سامنے آگئی ہیں، جس کی تشخیص نہیں ہونے پا رہی ہیں۔ مختلف کھانے پینے کی چیزیں جس میں دودھ مکھن اور اس کے علاوہ مسالہ جات میں جو کیمیکل استعمال ہو رہے ہیں اور جو رنگ استعمال کیا جا رہا ہے، اس کی وجہ سے بھی کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ہسپتال میں مریضوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔
ہر گوالا چاہتا ہے کہ اس کی گائے یا بھینس زیادہ دودھ دے تاکہ آمدن بڑھ سکے۔ آمدن بڑھانے کی یہی تمنا اب تمام اخلاقی حدود پار کر چکی ہے۔ بہت سے گوالے اب جانوروں کو آکسی ٹوسین ہارمون کا ٹیکا لگاتے ہیں جو دودھ کی پیداوار میں ”50 فیصد“ تک اضافہ کر سکتا ہے۔ گویا ٹیکا لگانے سے گوالے کو ایک جانور سے پانچ کلو کے بجائے نو دس کلو دودھ ملتا ہے۔
گوالے دودھ کی مقدار بڑھانے کیلئے حیوانوں کو ایک ہارمون، بووائن سوماٹو ٹروپین کا ٹیکا بھی لگاتے ہیں۔ یہ ہارمون بھی گائے بھینس میں دودھ کی مقدار بڑھاتا ہے۔ پاکستان میں گائے بھینسوں کو یہ ہارمون دینا عام ہے۔یہ دونوں ہارمون زیادہ مقدار میں انسانی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔کیمیائی مادوں کی ملاوٹ جاری تھی کہ ”ذہین موجدوں“ نے مختلف اشیا کی مدد سے مصنوعی دودھ تیار کرنے کا طریقہ ایجاد کر لیا۔
یہ منصوعی دودھ بنانے کے کئی طریقے ہیں۔ پاکستان میں یہ طریقہ زیادہ مستعمل ہے: ایک برتن میں ایک کلو خالص دودھ ایک کلو کھانا پکانے کے تیل میں ملایئے۔ دوسرے برتن میں ایک کلو خشک دودھ دس لیٹر پانی میں ملایئے۔ انہیں اتنا حل کیجیے کہ خشک دودھ اور پانی باہم مل جائے۔ پھر دونوں برتنوں کے محلول ملا لیں اور ا نہیں اچھی طرح حل کریں۔
بعدازاں اس آمیزے میں کاربوکسی میتھائل سیلولوز پاﺅڈر ملایئے، یہ سفوف دودھ گاڑھا کرتا ہے۔ گاڑھا پن خالص دودھ کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذا چالاک گوالے قدرتی اور مصنوعی ،دونوں قسم کے دودھ میں مختلف اشیاءمثلاً سوڈیم کلورائیڈ‘ یوریا ‘ کپڑے دھونے کا پاﺅڈر،ایس این ای مادے، نشاستہ (کاربوہائڈریٹ)‘ پسے سنگھاڑے، کیلشیم ہائڈرو آکسائڈ، سکم ملک پاؤڈر، پینٹ وغیرہ ملاتے ہیں تاکہ وہ گاڑھا ہو جائے۔
مدعا یہ بھی ہوتا ہے کہ دودھ خریدنے والی کمپنیوں کے لیکٹو میٹر ملاوٹی اجزا نہ پکڑ سکیں۔ (لیکٹو میٹر دودھ کا گاڑھا پن چیک کرنے میں کام آتا ہے۔)۔جبکہ خالص دودھ میں ملاوٹ کرنے والی اشیا میں چینی، نمک، بینزوک ایسڈ، سیلیسائلک ایسڈکاربونیٹس اور بائی کاربونیٹس اور ایمونیم سلفیٹ بھی شامل ہو چکے۔ مصنوعی دودھ کوئی غذا نہیں بلکہ جوتے، پنکھے اور کمپیوٹر کی طرح ایک مصنوعہ یا پراڈکٹ ہے۔
اس دودھ میں چکنائی پیدا کرنے کی خاطر کھانا پکانے کا تیل کام آتا ہے۔ ڈیٹرجنٹ یا کپڑے دھونے کا پاؤڈر پانی اور تیل کو اچھی طرح حل کردیتا ہے۔ کاسٹک سوڈا اس لیے ملاتے ہیں تاکہ مصنوعی دودھ میں تیزابیت جنم نہ لے ورنہ وہ دودھ کو کھٹا کر دیتی ہے۔
ملاوٹ شدہ دودھ کے ذریعے انسان کو نشانہ بنانے والی بیماریوں اور طبی خرابیوں میں یہ قابل ذکر ہیں: ٹائیفائیڈ‘ ہیضہ‘ پیٹ کے امراض، ہڈیوں اور جلد کی بیماریاں، ہیپاٹائٹس، ہائپر ٹینشن، تیزابیت، غنودگی طاری رہنا، ذہانت میں کمی‘ بال جھڑنا، بالوں کا قبل از وقت سفید ہو جانا‘ بچہ وقت سے پہلے پیدا ہونا، صبر و برداشت میں کمی آ جانا، گردوں کی خرابیاں، گنجا پن، غم و غصے میں اضافہ، دل کی شریانوں کے امراض۔
ان سب طبی خرابیوں سے بچنے کیلئے خالص دودھ نوش کیجیے اور مصنوعی دودھ کو تو ہاتھ نہ لگایئے۔ افسوس انسانی لالچ و ہوس نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عظیم غذائی نعمت کو سفید زہر بنا دیا ہے۔