کراچی: ایف پی سی سی آئی نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے گندم، چینی اور ایل این جی کی بروقت خریداری میں ناکامی اور منافع خوری کا سدباب نہ کرنے کی وجہ سے عوام پر کھربوں روپے کا اضافی بوجھ پڑا ہے۔ جبکہ دیگر مختلف کارٹیلز بھی عوام کو مسلسل لوٹنے میں مصروف ہیں۔
میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گندم اور چینی کے بحران کے ذریعے عوام کی جیب سے کئی کھرب روپے نکلوا لئے گئے۔ جبکہ سبزی اور پولٹری کی قیمت میں بھی بار بار اضافہ ہو رہا ہے۔
گندم کے بعد ایل این جی کا بحران آیا ہے اور جنوری میں ایل این جی کے کارگو کےلئے جو قیمت ادا کی جائے گی وہ ایشیاء میں گزشتہ چھ سال کا ایک ریکارڈ ہو گا، کیونکہ ایل این جی کے کارگو موسم گرما میں بک نہیں کئے گئے اور ہنگامی خریداری کا سارا بوجھ عوام پر پڑے گا۔ اس سے پیداواری اور برآمدی شعبے متاثر ہونگے۔
گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ بھی 350 ارب روپے سے بڑھ گیا ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ گیس کے اہم محکمے کسی سربراہ کے بغیر ہی چلائے جا رہے ہیں۔ گیس ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو توڑ کر اگر ضلعی یا ڈویژن کی سطح پر چھوٹی کمپنیاں بنائی جائیں تو شاید نقصانات کم ہو جائیں مگر اس تجویز پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح نجی شعبے کو گیس درآمد نہیں کرنے دی جا رہی جو عوام کو سستی گیس سے محروم رکھنے کی سازش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایل این جی کے بعد بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے کا بحران عوام کا منتظر ہے۔ تمام تر دعوؤں اور توانائی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر اعلیٰ حکام کے رد و بدل کے باوجود گردشی قرضہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تک جا پہنچا ہے۔ اس کے حل کے لئے کوئی قابل عمل پلان موجود ہی نہیں ہے، جس کی غیر موجودگی میں آئی ایم ایف سے قرضے کی بحالی ناممکن ہے۔
گردشی قرضہ ڈھائی کھرب روپے تک پہنچ کر معیشت کے لئے حقیقی خطرہ بن رہا ہے مگر اسے حل کرنے کی کوششیں، بیانات، دعوؤں اور واٹس ایپ تک محدود ہیں۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اگر بجلی کی قیمت جس میں حال ہی میں اضافہ ہوا ہے مزید بڑھائی گئی تو اس سے افراط زر بڑھے گا۔ جبکہ سبسڈی دی گئی تو حکومت کا خسارہ بڑھے گا۔ آئی ایم ایف کی موجودگی میں سبسڈی دینا بہت مشکل کام ہوگا۔