آٹھ فروری کو انتخابات کا اعلان ہوتے ہی پاکستان میںدہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خودکش بم دھماکوں اور عسکریت پسندوں کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔۔آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن کی گہما گہمی بڑھ جانے کے بعد اس قسم کے حملے دیگر صوبوں میں بھی دہشت گردی کے حملے ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیںکیونکہ اگر ٹی ٹی پی سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیاں جاری رکھتی ہے تو داعش اور اس سے وابستہ شدت پسندتنظیمیں پاکستان کی بعض سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کے خلاف کارروائیاں کر سکتے ہیں۔سال 2023 میںدہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی مجموعی اموات میں سے 92 فیصد انھی دو صوبوں میں ہوئیں۔گزشتہ برس 12 دسمبر کی درمیانی شب خیبر پختون خوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں کے حملے میں 25 فوجی جوان شہید جبکہ 27 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔کلاچی کے علاقے میں 4 دہشت گرد مارے گئے، تاہم فائرنگ کے تبادلے کے دوران میں پاک فوج کے 2 جوان شہید ہوگئے۔ 12 دسمبر کی صبح درابن کے علاقے میں 6 حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی ایک تھانے کی عمارت سے ٹکرا دی جہاں فوجی اہلکار بھی تعینات تھے۔ خودکش حملے کے نتیجے میں عمارت گر گئی اور 23 فوجی جوان شہید ہوگئے۔اسی طرح گلگت بلتستان کے ضلع غذر سے راولپنڈی جانے والی بس پر چلاس میں شاہراہ قراقرام پر ہڈور کے مقام پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے آٹھ مسافر جاں بحق اور سولہ شدید زخمی ہوئے تھے۔ بس پر فائرنگ کے نتیجے میں پاک فوج کے دو جوان بھی شہید ہوئے تھے جبکہ اسپیشل پروٹیکشن یونٹ کا ایک جوان بھی زخمیوں میں شامل ہے۔
2 نومبر کو بلوچستان میں دہشت گردوں نے فوجی قافلے پر حملہ کیا جس میں 14 جوان شہید ہوئے۔ یہ حملہ پسنی سے اورماڑہ جانے والی گاڑی پر گھات لگا کر کیا گیا۔ اسی روز ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس وین کے قریب دھماکے سے 5 افراد جاں بحق ہوئے، 21 زخمی ہوئے۔ جبکہ یکم نومبرکو میانوالی میں ائربیس پر حملہ ہوگیا تین طیاروں اور فیول باﺅزر کو نقصان پہنچا۔ اس کارروائی میں 9 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔گزشتہ سال پاکستان میں ہونے والے 30 سے زائدخودکش حملوں میں 17 افغان باشندوں نے خودکش حملے کیے۔جبکہ باقی کا تعلق سابقہ فاٹا کے مختلف علاقوں سے تھا۔ڈیرہ اسماعیل خان حملے کی ذمے داری تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی ہے جو بظاہر ایک غیر معروف شدت پسند تنظیم اس سے قبل بھی دو حملوں کی ذمے داری قبول کر چکی ہے لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تحریک طالبان پاکستان کی ہی ایک طفیلی تنظیم ہے۔ماضی قریب میں پاکستان کی طرف سے افغان طالبان پر افغانستان میں موجود پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے شدید دباو ¿ رہا ہے، اس لیے غالب امکان یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ دراصل تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے ہی جنگجو ہیںجو نام بدل کر پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔
پاکستان اور دین اسلام کے دشمنوں کی سرپرستی میں علیحدگی پسند، فرقہ وارانہ، نسلی اور مذہبی بنیاد پرستوں کی وجہ سے پاکستانی شہری دہشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔پاکستان میں ہونیوالے دہشت گرد حملوں میں 70ہزارسے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ پاکستانی معیشت کو مجموعی طور پر 160بلین ڈالرز سے زیادہ کا مالی نقصان ہوا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں اب بھارت کے ملوث ہونے میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں رہا۔ بھارت کو دہشت گردی کے عالمی چمپئن امریکا اور اسرائیل کی سر پرستی حاصل ہے۔پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں بھی افغانستان میں چھوڑا جانے والا امریکی اسلحہ استعمال ہوا تھا پچھلے دو برسوں میں پاکستان میں ہونے والے تمام خودکش حملہ آور بھی افغان تھے جس سے لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ عسکریت پسندوں نے عملی طور پر پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا ہے۔سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ہونے والے کچھ حملوں میں افغان طالبان بھی ٹی ٹی پی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں نے افغانستان سے امریکا کو نکالنے میں طالبان کی مدد کی اور اب طالبان انھیں شیلٹر فراہم کر رہے ہیں۔ ان حملوں اور دیگر معاملات کی وجہ سے ہی نگران حکومت نے غیرقانونی طور پر مقیم افغانیوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔اس کے بعد سے چار لاکھ سے زیادہ افغان باشندے ملک چھوڑ چکے ہیں لیکن اب بھی 10 لاکھ غیر قانونی افغان شہری باقی ہیں۔
پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں افغانستان سے لائے جانے والے امریکی ساخت کے اسلحے کے استعمال کے ثبوت ایک بر پھر منظر عام پرآچکے ہیں۔ پینٹاگون کے مطابق امریکا نے افغان فوج کو کل 427,300 جنگی ہتھیار فراہم کیے، جس میں 300,000 انخلا کے وقت باقی رہ گئے، اس بنا پر خطے میں گزشتہ دو سالوں کے دوران دہشت گردی میں وسیع پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پینٹاگون کے مطابق امریکا نے 2005 سے اگست 2021 کے درمیان افغان قومی دفاعی اور سیکیورٹی فورسز کو 18.6 ارب ڈالر کا سامان فراہم کیا۔یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان ریجیم نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔ذرائع کے مطابق حال ہی میں بھارتی بدنام زمانہ انٹلیجنس ادار ے ”را“ نے پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے لیے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے چار دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ انضمام کے لیے 10لاکھ ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی ہے،بھارت افغانستان میں تھنک ٹینکس اور دیگر ذرائع سے بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھی رقم فراہم کرکے ان کی مالی اعانت کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔
بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ مختلف جی پی ایس کے ذریعے سی پیک CPECکے منصوبوں پر حملے کروا کے ان منصوبوں کی پیش رفت رکوانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہے۔افغانستان سے 23 دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جن میں سے 17 دہشت گرد تنظیمیں صرف پاکستان میں دہشت گردی پھیلاتی ہیں۔ پاکستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی کے بارے میں پاکستان کی طرف سے پہلے ہی ایک ڈوزیئر جاری کیا جا چکا ہے جس میں انتہائی مخصوص معلومات جیسے بینک اکاو ¿نٹس اور اس میں ملوث بھارتی شہریوں کے شواہد موجود ہیں جو دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ اس ڈوزیئر میں ٹی ٹی پی، بلوچ شرپسندوں اور دیگر گروپوں کے تربیتی کیمپوں کی تعداد اور مقامات بھی شامل ہیں۔بھارتی ایجنسیز کی خطے میں دہشت گردی پھیلانے کا ثبوت قطر میں بھارتی بحریہ کے اہلکاروں کی سزا ہے اور کینیڈا میں سکھ رہنما کا قتل دوسرا اعلانیہ ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے کلبھوشن یادو کو پکڑا ہوا اور سزا بھی سنائی جاچکی ہے۔
بھارتی دہشت گردی سے بی این پی کے کمانڈر نے نقاب کھینچ دی ہے۔20 دسمبر کو کالعدم تنظیم بی این اے کے کمانڈر سرفراز احمد بنگلزئی اپنے 72 ساتھیوں سمیت کالعدم بی این اے سے علیحدہ ہوکر قومی دھارے میں شامل ہونے کا باقاعدہ اعلان نگراں صوبائی وزیرداخلہ میر زبیر جمالی اورنگراں صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی کے ہمراہ سول سیکرٹریٹ کوئٹہ کے سکندر جمالی آڈیٹوریم میں پریس کانفرنس کر تے ہوئے کیاتھا۔ سرفراز احمد بنگلزئی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا امن تباہ کرنے کے لیے پاکستان کا ازلی دشمن ملک بھارت فنڈنگ کرتا ہے اس کے علاوہ مزاحمتی تحریک اور کالعدم تنظیمیں منشیات فروشی،بھتہ خوری اورلوگوں کو اغوا بھی کرتی ہیں کچھ لوگ مذموم مقاصد کے لیے بلوچ ماﺅں، بہنوں اور بلوچ سادہ لوح نوجوانوں کو ریاست کیخلاف استعمال کر رہے ہیں۔سرفراز احمد بنگلزئی نے کہا کہ میں بلوچستان میں محکمہ خوراک میں ملازم رہا میرے پاس گھر، گاڑی اور سب کچھ تھا لیکن میں 2009 میں چند لوگوں کے بہکاوے میں آگیا اور قومیت کے نام پر بہت سی کارروائیاں کیں لیکن جب میں نے نام نہاد لیڈروں کو عیش کرتے دیکھا تو مجھے پتا چل گیا کہ یہ لوگ ملک دشمن ہیں، کچھ لوگ مذموم مقاصد کے لیے بلوچ ماﺅں، بہنوں اور بلوچ سادھ لوح نوجوانوں کو ریاست کیخلاف استعمال کر رہے ہیں،جنگ میں خواتین کو بھی دھکیلا جارہا ہے اور اب تو خودکش حملوں کے لیے بھی نوجوانوں کو برین واش کرکے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، ان کے خاندان ایک اذیت ناک دربدری کی زندگی گزار رہے ہیں اور خودکش حملے میں ملوث نوجوان کی والدہ آج بھی ماری ماری پھرتی ہے اور کہتی ہے کہ میں نے بیٹے کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا لیکن اسے ورغلاکر استعمال کیا گیا اس ماں سے میں خود مل چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ گلزار امام شمبے اور میرے معاملے میں فرق ہے وہ پکڑا گیا تھا اور میں خود حکومت کے روئیے سے متاثر ہوکر واپس آیا ہوں میرے ان کے ساتھ خواتین کو استعمال کرنے پر اختلافات تھے ، افغانستان کی موجودہ اور سابقہ حکومتوں میں کوئی فرق نہیں آج بھی بی ایل اے کا کمانڈر بشیر زیب افغانستان میں موجود ہے۔
افغانستان ہمارا ہمسایہ اور 98فیصد مسلمانوں کا اسلامی ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کا صدیوں پرانا نسلی اور لسانی رشتہ بھی ہے مگر ادھر سے ٹھنڈی ہوا کے خوشگوار جھونکوں کی بجائے ہمیشہ گرم لو کے تھپیڑے ہی آتے رہے۔ طالبان کی اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد قوی توقع تھی کہ یہ سلسلہ اب رک جائے گا اور شمال مغربی سرحدوں سے دوستی تعاون اور امن کا پیغام آئے گا مگر صد حیف کہ اس کی بجائے دہشت گردی کی نئی لہر آگئی جس کی ذمہ دار پاکستان دشمن دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی ہے اور اس کو کابل حکومت کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغانستان میں اپنے خفیہ ٹھکانوں سے پاکستان میں دراندازی کرتے ہیں اور سکیورٹی فورسز کے علاوہ عام شہریوں کو بھی اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ان حالات میں حکومت، سیکیورٹی فورسز، عدلیہ، سویلین اداروں اور سیاسی جماعتوں کے قیادت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ومتفق ہوکر متحرک اور جاندار کردار ادا کرے۔ وفاقی ، صوبائی حکومتوں اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کو بھی چاہیے کہ امن و امان کے قیام اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ حساس مقامات کی حفاظت کے لیے تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لائیں۔افغانستان کی حکومت کے اکابرین کو بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعے یا نفرت کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ پاکستان نے افغانستان پر کبھی حملہ کیا ہے اور نہ ہی اس کے کسی علاقے پر زبردستی قبضہ کیا ہے۔پاکستان نے افغان ٹریڈ کو بھی قانون کے مطابق جاری رکھا ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت نے افغانستان کا ساتھ دیا ہے‘ افغانستان میں غیرملکی فوجوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے افغان مجاہدین اور طالبان قیادت کا بھرپور ساتھ بھی دیا ہے‘ لاکھوں افغان باشندوں کو اپنے ملک میں پناہ بھی دیے رکھی ہے‘ ان حقائق کے باوجود افغانستان کا حکمران طبقہ ،چاہے وہ مذہبی طبقہ ہو ،چاہے لبرل اور ماڈریٹ طبقہ ہویا اریسٹوکریٹس کا طبقہ ہو ،ان کی پاکستان مخالف سوچ رکھنا ایک المیہ ہی کہلا سکتا ہے۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں عام شہریوں کے علاوہ پولیس اور فوج کے جوانوں اور افسروں کی قربانیاں بھی دے چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہماری ان قربانیوں کا اب عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا جانے لگا ہے لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ جنگ کا آخری مرحلہ ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ماضی میں پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور فوجی آپریشنز کیے اور ان کا کافی حد تک خاتمہ کردیا تھا لیکن اب افغانستان میں ایسے عناصر موجود ہیں، جو پاکستان کے خلاف کام کرنا چاہتے ہیں اور ٹی ٹی پی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی دوبارہ متحرک ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک بار پھر ہمیں ان ہی بے رحم قاتلوں کا سامنا ہے جو اس سے پہلے بھی ہمارے شہر کے گلی کوچوں میں آگ و خون کا وحشیانہ کھیل کھیلتے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام اور ریاستی اداروں نے جانی اور مالی قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کرکے اس فتنہ کو دبایا تھا لیکن افغانستان سے امریکا کے انخلاءکے بعد پاکستان میں رواں برس دہشتگردی کے واقعات کا تسلسل جاری ہے، جس میں نہ صرف عام شہری نشانہ بنے ہیں بلکہ پاک فوج کے ایئر پورٹس اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
کسی ریاستی ادارے پر حملہ صرف ” ریاست پر حملہ“ کہہ کرجان نہیں چھڑائی جاسکتی کیونکہ انتظامی ادارے پر حملہ کرنے کا مقصد ہی عوام میں خوف اور بے یقینی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا موقف یہ ہے کہ ابھی طالبان سے مذاکرات کی گنجائش موجود ہے۔ ریاست بلاشبہ پوری طاقت سے دہشتگردی کے خلاف نبرد آزما ہے لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ کمی کہاں باقی ہے؟ کیوں ہم اتنی قربانیوں کے باوجود اب تک اس لعنت سے چھٹکارا نہیں پاسکے۔ افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے لیکن افغانستان کو بھی یہ بات باور کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ خیر سگالی کی یہ ٹریفک یک طرفہ نہیں چل سکتی۔اقوام عالم کو بھی سفارتی سطح پر یہ بات اچھی طرح باور کرانی ہوگی کہ خطے میں امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک افغانستان سلگ رہا ہے اور اس سے بھی زیادہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان سے ہوکر جاتا ہے۔
افغان سرحد سے پاکستان کی سلامتی اور دفاع کو مسلسل چیلنج کیا جارہا ہے، لہٰذا طالبان حکومت کو ایک بار پھر سختی سے وارننگ دینے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے ان کے سہولت کاروں پرآہنی ہاتھ ڈالنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ اگر ریاستی منصوبہ بندیمیں کوئی کمی یا کمزوری رہ گئی ہے تو اسے دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں سے نمٹنے سے متعلق سخت پالیسی اپنائی جائے۔ سہولت کاروں کے بغیر دہشتگردی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دہشتگردی کے پھیلتے ناسور کو بہر صورت جیسے بھی ہے یہیں پر ختم کرنا ہوگا۔ قوم صرف دہشت گردوں کا خاتمہ دیکھنے کی خواہشمند ہے تاکہ وہ اپنی آنے والی نسل کو ایک بہتر ماحول دے سکے جہاں بارود سے گونجتی ہوئی دہشت یا خوف نہ ہو۔ دہشتگردی کی نئی لہر نے سوچ کے بہت سے دروازے کھول دیے ہیں۔ ہمیں پاکستان سے باہر دیکھنے سے پہلے اپنی صفوں میں موجود دہشت گردوں کے حمایتیوں کو تلاش کر کے سنگین سزائیں دینا ہوں گی، تاکہ دشمن ہماری کامیابیوں کا اثر زائل نہ کر سکے تانکہ پاکستانی قوم مکمل امن کی منزل سے ہمکنار ہو اور ترقی کی طرف تیز رفتاری سے پیش قدمی کرے۔