تاریخ کو پُر اثر بنانے کیلئے درباری مورخ کو مختلف واقعات گھڑنے پڑتے ہیں، جس میں سرِ فہرست یہ بات ہوتی ہے کہ رات کو بادشاہ بھیس بدل کر رعایا کی دادرسی کیلئے نکلتا ہے۔
اب نہ تو اُس زمانے میں ٹیلی ویژن اور نہ اخبارات کہ لوگ بادشاہ کی شکل پہنچانتے ہوں پھر کیوں اُس کو بھیس بدلنا پڑتا ہے اس بات پر مورخ بالکل خاموش ہے جیسے آج کل کی پریس کانفرنس میں مشکل سوالوں کے سامنے ہمارے سیاستدان خاموش ہوجاتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بادشاہ کثرتِ ازدواج اور کثیرالعیال ہوتے تھے، وہ تو اچھا ہے کہ اس وقت تک ڈی این اے ٹیسٹنگ ایجاد نہیں ہوئی تھی ورنہ مزید الجھنیں پیدا ہوجاتی۔
کسی کو محل کے باہر گھنٹا لگوانے کا شوق تھا کہ فریادی انصاف کے حصول کیلئے آئے اور گھنٹا بجائے۔ کسی بھی بادشاہ نے نظام وضع کرنے کی کوشیش نہیں کی کہ ایک نظام کے تحت لوگوں کو تمام بنیادی ضرورت کی چیزیں ان کو اپنے گھر کی دہلیز پر مل جائے۔
اگر ایسا ہوجاتا تو آج تاریخ کا رخ کچھ اور ہوتا۔ اسی لئے آج تک ہم شخصیت پرستی سے نہ نکل سکے اور نہ کوئی نظام وضع کر سکے۔ اپنے روزمرہ کے اخراجات کیلئے کوئی بادشاہ قرآن مجید لکھتا اور ٹوپیاں سیتا بعد میں یہ ٹوپیاں عوام سے پیسے لیکر اُن کو پہنائی جاتی تھی۔
ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ آج کے دور کی تاریخ چار یا پانچ سو سال بعد جب پڑھی جائے گی تو وہ کیسی ہوگی اس تحریر میں آپ کو اس کی جھلک دکھانے کی کوشیش کی گئی ہے۔
2022ء میں ملک امدادستان کا بادشاہ اتنا دیالو تھا کہ جب بھی وہ کسی بھی چیز قیمت بڑھاتا تو دل پر پتھر رکھ کر بڑھاتا حالانکہ اُس کا دل بھی اُس کے پاس نہ ہوتا تھا اُس کا دل تین چار جگہوں پر سرکاری طور پر ہوتا تھا اور کچھ اتنی ہی جگہوں پر نیم سرکاری طور پر ہوتا تھا۔
غیر سرکاری طور پر کتنی جگہوں پر ہوتا تھا اس کا علم تو صرف اللہ کو تھا۔ یہ بادشاہ بارش میں فل بوٹ پہن کر سڑکوں پر نکل آتا اور تمام نالوں کو انگلی کے اشارے سے کھلنے کا حکم دیتا، تمام سرکاری عامل کی موجودگی میں بھی وہ یہ کام خود کرتا تاکہ مورخ کو اس کے کارنامے درج کرنے میں کوئی مشکل نہ ہوں۔
بادشاہ کی ایک خوبی تو سنہرے حروف میں لکھنے کے لائق تھی (وہ حروف جو خود ہی تھوڑے عرصے بعد سیاہ ہوجائے) بادشاہ جب بھی کسی خوبصورت خاتون کو اکیلا دیکھتا تو اُس سے اس کی یہ تنہائی دیکھی نہ جاتی اور وہ فوراً اسے شادی کی پیشکش کر دیتا۔
اور اگر کوئی عورت شوہر کی موجودگی میں بھی تنہا لگتی تو ایسا نہیں ہے کہ وہ شوہر کی وجہ سے اُس سے کوئی امتیازی سلوک کرتا وہ تو تمام خوبصورت خواتین کو ایک آنکھ سے دیکھتا ویسے لوگوں کو اُس کی آنکھ میں دیکھنے کی اجازت نہ تھی کہ خدا معلوم اُن کو کیا نظر آجائے۔
ایک اور بادشاہ تھا جس کو "ز" سے شروع ہونے والی ہر چیز بہت پسند تھی۔ وہ بھی اپنے ہی سینے میں بہت دردمند دل رکھتا تھا اسی لئے وہ خوبصورت مگر “غیر پیشہ ور” خواتین کو کورئیر کی جاب دیا کرتا تھا تاکہ ان کے گھر کا چولہا نہ بجھے اور ان کا دال دلیہ چلتا رہے ان خواتین کا کورئیر کا کام اتنا چلا کہ بعد میں اُنہوں نے دال دلیہ کے علاوہ سب کچھ کھانا شروع کردیا۔
اُن کے گھر کا چولہا کیا بجھتا بلکہ اُنھوں نے تو دوسروں کے گھروں میں آگ لگانے کا بھی کام شروع کردیا۔ یہ آگ اتنی پھیل گئی کہ لانچوں میں پانی لیکر اس آگ کو بجھایا گیا۔
ویسے آج کیلئے اتنا کافی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ درباری مورخ کا کام ختم ہوگیا درباری مورخ کا کام ہنوز جاری ہے اور ویسے بھی جب تک دربار سلامت ہے درباری مورخ کی ضرورت ختم نہیں ہوگی، دیکھتے ہے کہ آگے مورخ کیا تاریخ رقم کرتا ہے اور کس رقم کے عوض کرتا ہے۔
تحریر: سہیل یعقوب
جنرل سیکریٹری، پاکستان قومی اتحاد (PQI)