کراچی: ایف پی سی سی آئی کے نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ سائبر کرمنلز مالیاتی اداروں اور آن لائن بزنس کے لئے بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔ ان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے عوام اور کاروباری برادری کا اعتماد متاثر ہو رہا ہے جبکہ ان سے نمٹنے والے اداروں کی کارکردگی مایوس کن ہے۔
میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سائبر کرائمر میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جس سے کاروباری لین دین مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔مجرموں کو نادرا بینکوں اور ٹیلی کام کمپنیوں سمیت متعدد اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کا تعاون حاصل ہےءجو انھیں صارفین کا ڈیٹا فروخت کرتے ہیں جسکی مدد سے یہ ہائی ٹیک مجرم لوٹ مار کرتے ہیں اور ملکی اداروں کے لئے انھیں ٹریس کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
کئی گروہ یونین کونسلوں سے ڈیٹا حاصل کرتے ہیں جبکہ کئی کو عوام کی ووٹر لسٹوں تک رسائی حاصل ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں بینکوں اور دیگر نجی و سرکاری اداروں نے سائبر سیکوریٹی کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے ہیں جبکہ انٹرنیٹ سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے بھی زیادہ تر سفارشی افراد کو بھرتی کیا گیا ہے جس سے معاملات بگڑ رہے ہیں۔
کئی بینک مقامی اور غیر ملکی ہیکروں کا نشانہ بن چکے ہیں تاہم ایسے زیادہ تر واقعات پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے تاکہ صارفین کا اعتماد متاثر نہ ہو۔پاکستان میں اس سلسلہ میں قوانین اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دونوں کمزوری کا شکار ہیں۔ ایک طرف قوانین کمزور ہیں تو دوسری طرف اداروں کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ سائبر کرائمز کو ایک وفاقی ادارے کا ونگ بنانے کے بجائے الگ ادارے قائم کیا جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2015 میں سائبر کرائمر کی وجہ سے دنیا کو تین کھرب ڈالر کا نقصان ہوا تھا جو 2025 تک ساڑھے دس کھرب تک پہنچ جائے گا جو ساری دنیا میں ہر قسم کی منشیات کی تجارت سے زیادہ منافع بخش اور قدرتی آفات سے زیادہ نقصان دہ ہے۔