ویانا: پاکستان میں ورچوئل کرنسی بشمول بٹ کوائن، پاک کوائن، ون کوائن، ڈیس کوائن، لائٹ کوائن اور پے ڈائمنڈ سمیت دیگر قسم کی کرپٹو کرنسی کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں جہاں بے شمار لوگ اس کی آن لائن ٹریڈنگ کر رہے ہیں، وہیں یہ دنیا بھر میں منی لانڈرنگ اور مختلف جرائم کی وارداتوں سمیت دہشت گردوں کی فنڈنگ کا بھی اہم ذریعہ ہے۔
کرپٹو یا تصوراتی کرنسی اس وقت ترقی یافتہ دنیا میں سیکورٹی اداروں کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کی کرنسی کے آن لائن تبادلے یا لین دین میں مانیٹرنگ کرنے والے اداروں کو یہ معلوم نہیں ہوسکتا ہے کہ کرنسی کس کے آن لائن والٹ یعنی اکاو¿نٹ سے کس دوسرے شخص کے والٹ میں ٹرانسفر ہوئی ہے۔ اس کرنسی کا لین دین ملکوں کی حدود و قیود اور قوانین سے آزاد ہے۔
یہی وجہ ہے کہ منی لانڈرنگ اور جرائم کی وارداتوں میں ادائیگی اور وصولی کے لئے اس کرنسی کے استعمال کو مجرمانہ ذہن رکھنے والے افراد محفوظ سمجھتے ہیں۔ جبکہ حالیہ عرصہ میں انٹرپول سمیت دیگر عالمی اداروں کی جانب سے اس کرنسی کے دہشت گردی میں استعمال کے حوالے سے بھی خدشات ظاہر کئے گئے ہیں۔
حالیہ عرصہ میں انٹرنیٹ صارفین کا نجی ڈیٹا ہیک کرکے ورچوئل کرنسی کی مذکورہ بالا اقسام کے ذریعے آن لائن تاوان طلب کرنے کی بے تحاشا وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ مجرمان ویب سائٹس کو اس کے اہم ڈیٹا سمیت ہیک کرکے ویب سائٹس انتظامیہ سے رابطہ کرتے ہیں اور ان سے ویب سائٹس ڈیٹا سمیت واپس بحال کرنے کیلئے تاوان طلب کرتے ہیں۔ یہ تاوان بٹ کوائن وغیرہ کی شکل میں وصول کیا جاتا ہے۔
ورچوئل کرنسی میں ہونے والی سرمایہ کاری کی وجہ سے اس کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ چند برس قبل ورچوئل کرنسی کی ایک قسم ”بٹ کوائن“ کی مالیت پاکستانی کرنسی میں فی بٹ کوائن 10 سے 12 ہزار روپے تھی۔ تاہم آج ایک بٹ کوائن کی قیمت 13 سے 14 لاکھ روپے کے درمیان ہے۔
یعنی جن افراد نے 2014ء یا 2016ء میں آن لائن بٹ کوائن خریدنے کے لئے سرمایہ لگایا تھا آج ان کے سرمایہ میں 100 گنا سے زائد اضافہ ہوچکا ہے۔ 50 ہزار روپے کی سرمایہ کاری کرنے والا شخص آج 50 سے 60 لاکھ کا مالک ہے۔