میرل بورن کرکٹ کلب (ایم سی سی) دنیا کا سب سے قدیم گراؤنڈ ہے جہاں 18 ویں صدی میں کرکٹ کا آغاز ہوا تھا۔ 1787ء میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور یہ کلب آج بھی برطانیہ کے شہر لندن میں بطور میوزیم موجود ہے۔ یہاں انگلش کرکٹ انتظامیہ نے سوا 300 برس پرانے بلّے دریافت کئے ہیں۔
3 صدیوں کے دوران کرکٹ بیٹ کے ڈیزائن میں 8 مرتبہ تبدیلی کی گئی۔ جبکہ 1720ء سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ 1930ء میں تھم گیا تھا۔ اگرچہ کہ لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں ایم سی سی کا تاریخی کلیکشن 8 مختلف بلوں پر مشتمل ہے۔ مگر تمام کا وزن ایک سے ڈیڑھ کلے کے درمیان ہے۔ دوسری جانب ان کی تیاری میں اعلیٰ معیار کی تازہ گوند استعمال ہوئی ہے۔
1720ء میں کرکٹ کھیلنے کیلئے تیار کیا گیا سب سے پہلا بیٹ ہاکی نما اسٹک کی مانند تھا، جو کسی انداز سے بھی کرکٹ کی نمائندگی نہیں کرتا تھا۔ ایم سی سی میوزیم میں اس بلّے کا نام ’’کروڈ‘‘ یعنی مڑا ہوا بیٹ ہے۔
دونوں ابتدائی بلوں کو ایک ہی نام دیا گیا ہے اور 30 برس بعد 1750ء میں پہلے بیٹ کی بناوٹ کو رد کرکے دوسرے متعارف کرائے گئے بلّے کو مزید چوڑائی بخشی گئی۔ یہ بلّا دائیں جانب سے چوڑا، جبکہ بائیں طرف بائیں طرف سے اوپر تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں تھی چنانچہ یہ بیٹ بھی کرکٹ کے معیار پر پورا نہ اتر سکا۔
1774 میں سامنے آنے والا ’’ارلی اسٹریٹ بیٹ‘‘ گوکہ دکھنے میں ایک معقول کرکٹ بیٹ تھا، لیکن یہ عقب سے بھی سامنے کی طرح ہی فلیٹ تھا، جبکہ اس کے کونے دونوں طرف سے مڑے ہوئے تھے، جس کے باعث اسے پذیرائی نہیں مل سکی۔
1792ء میں اس وقت کے معروف فرسٹ کلاس انگلش کرکٹر بلی بیلڈھم نے موجودہ بیٹ سے ملتا جلتا ’’لٹل جوائی‘‘ نامی بلّا متعارف کرایا، جسے لیگ بفور وکٹ (ایل بی ڈبلیو) کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا۔ اس بیٹ کا وزن سوا کلو اور چوڑائی 5.11 سینٹی میٹر تھی۔
اگلے ہی برس 1793ء میں ایک اور بیٹ منظر عام پر آیا، جس کی بناوٹ ’’لٹل جوائی‘‘ سے زرا مختلف تھی۔ مذکورہ بیٹ کا نام ’’اسکائی اسکریپر‘‘ رکھا گیا اور اطمینان بخش ڈیزائن کی بدولت 19ویں صدی تک اسکائی اسکریپر طرز کے بیٹ بنتے رہے اور بیٹسمینوں کے زیر استعمال رہے۔
43 برس بعد 1835ء میں کرکٹ بیٹ میں مزید بہتری لانے کیلئے کیا گیا چھٹا تجربہ کامیاب ثابت ہوا۔ یہ بیٹ fuller pilch’s کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بلکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا بلّا ہے جس نے65 برس تک دنیائے کرکٹ پر راج کیا، لیکن 20 ویں صدی کے آغاز میں اس کامیاب ترین بیٹ کا متبادل بھی فیچر کر دیا گیا۔ نئے بلّے کو ’’وی جی گریس‘‘ کا نام دیا گیا۔
کئی دہائیوں کی تگ و دو کے بعد آخر کار 1930ء میں ’’جیک ہوبس‘‘ بیٹ متعارف کرایا گیا، جس کی بناوٹ کو کسی بھی کرکٹ کھیلنے والے نے کبھی چیلنج نہیں کیا اور موجودہ جدید دور میں بھی کرکٹ بیٹس اسی ڈیزان کی طرز پر تیار کئے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ کرکٹ میں بیٹسمینوں کی اجارہ داری کے باعث بیٹ کے وزن، موٹائی اور چوڑائی کے حوالے سے بحث چلتی رہتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ آج کل بیٹ کے سوئٹ پوائنٹ اور باہری کنارے ایسے بنائے جاتے ہیں، جس سے ٹج اور ایج لگ کر بھی گیند باؤنڈری تک چلی جاتی ہے۔
کرکٹ میں بلّے کیلئے لمبائی اور چوڑائی کے حوالے سے قانون موجود ہے لیکن اس کے وزن پر آئی سی سی نے کوئی قانون سازی نہیں کی جس کے باعث ہلکے پھلکے مواد سے بنائے گئے بلّے کے استعمال کو تقویت ملی ہے۔