دنیا چاند پر پہنچنے کے بعد مزید ترقی کی راہ پر گامزن ہے لیکن قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال بلوچستان کے عوام کی حالت آج کے جدید دور میں بھی نہیں بدلی۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان میں لوگ آج بھی صدیوں پرانے طریقے سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
بلوچستان میں پانی کی شدید قلت ہے۔ گوادر، پسنی، جیوانی، لسبیلہ، حب، گڈانی، بھاگ، نوکنڈی، مستونگ، لو رالائی، کوئٹہ اور ڈیرہ بگٹی، کوہلو، سوئی سمیت دیگر علاقوں میں پانی کا بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا محور سمجھے جانے والے ساحلی ضلع گوادر تمام ترحکومتی دعوؤں کے باوجود شہری زندگی کی اکثر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ پاکستان اور چین مل کر ایران کے قریب اور خلیج فارس کے دہانے پر واقع گوادر بندرگاہ کو علاقائی، تجارتی، صنعتی اور جہاز رانی کا مرکز بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
یہ بندرگاہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کا حصہ ہے۔ سی پیک کے ذریعے چین کو مشرق وسطیٰ تک محفوظ اور مختصر ترین تجارتی راستہ حاصل ہو جائے گا اور پاکستانی معیشت بھی اس سے فائدہ اٹھا سکے گی۔ تاہم پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے اس منصوبے کے مرکز گوادر کے ایک لاکھ شہریوں کو بنیادی ضروریات زندگی پانی اور بجلی کی شدید کمی کا سامناہے۔
یہاں کے باسیوں کو گیس کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ جبکہ گوادرکی سرکاری انتظامیہ اور لیویز فورس کے اہلکاروں کا رویہ بھی عام شہریوں سے توہین آمیز ہے۔ ضلع گوادر میں پانی کا مسئلہ اتنا سنگین ہو چکا ہے کہ لوگوں کو معاش کی بجائے زیادہ پریشانی پانی کی ہوتی ہے۔ دوسری جگہوں پر لوگ صبح اٹھ کر اپنی معاش کا فکر کرتے ہیں لیکن گوادر کے لوگوں کو یہ فکر ہوتی ہے کہ وہ کہ پانی کا انتظام کہاں سے کریں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گوادر جسے حکومت وسط ایشیا کا گیٹ وے قرار دے رہی ہے اور سی پیک منصوبوں کے مطابق یہ علاقہ جلد ہی اس خطے کا ایک بڑا کاروباری اور صنعتی علاقہ بن جائے گا، اس جیسے اہم علاقے میں پینے کے پانی کی فراہمی کا کوئی انتظام نہ کیا جانا اور گوادر کو ترقی دینے کے منصوبوں میں اس شہر کے لوگوں اور شہر میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے بعد علاقے کی آبادی میں متوقع اضافے کے بعد پانی کی طلب میں ممکنہ اضافے کو مد نظر نہ رکھا جانا کس کی غلطی ہے اور اس غلطی کی سزا کسے بھگتنا پڑے گی؟
یہاں یہ سوال بھی پیدا اہوتا ہے کہ کیا پانی کے اس بحران کے باوجود غیر ملکی کمپنیاں گوادر کو اپنے کاروبار کا مرکز بنانے پر تیار ہوں گی اور کیا پانی کے مناسب انتظام کے بغیر گوادر کی بندرگاہ پر معمول کی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن ہوسکے گا؟ یہ وہ سلگتے ہوئے سوالات ہیں جس کا جواب وفاقی حکومت کو ہی دینا چاہئے کیونکہ گوادر کا منصوبہ مجموعی طورپر وفاقی حکومت کا ہی منصوبہ ہے اور چین کے تعاون سے شروع کئے جانے والے اقتصادی کوریڈور یعنی سی پیک میں بھی اس کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
اگر سی پیک کے ایک کلیدی منصوبے کی منصوبہ بندی کایہ عالم ہے تو پھر اس منصوبے کے دیگر پراجیکٹس کی افادیت پر کیونکر یقین کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ارباب اختیار یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بلوچستان کا وسیع علاقہ بنجر تصور کیا جاتا ہے اور ان علاقوں کے مکینوں کا کاشت اور گلہ بانی اور پینے کے پانی کے حصول کا واحد انحصار بارشوں پر ہے، جب بارش ہوتی ہے تو ان علاقوں کے لوگوں کے چہرے پر خوشی دمکنے لگتی ہے اور پورا علاقہ رنگ برنگے پھولوں، بیل بوٹیوں سے سج جاتا ہے لیکن اگر بارش نہ ہو تو علاقے کی زمین کی طرح ان علاقوں کے باسیوں کے چہرے بھی مایوسی سے لٹک جاتے ہیں اور پورے علاقے میںدھول اڑنے لگتی ہے۔
مال مویشی جو اس علاقے کے لوگوں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں لوگوں کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں کیونکہ خشک سالی کی صورت میں جب لوگوں کو خود پینے کو پانی نہیں مل رہا ہوتا ہے تو وہ اپنے مویشیوں کو پانی کہاں سے دے سکتے ہیں اور جب ہر طرف دھول اڑ رہی ہوتی ہے تو مویشیوں کے لیے چارے کا انتظام کیونکر کیا جاسکتا ہے۔
یہ کوئی اچانک یا اتفاقی طورپر پیدا ہونے والی صورت حال نہیں ہے بلکہ یہ ایک قدرتی صورت حال ہے۔ اس لیے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکمران ملک اور خاص طورپر ان علاقوں کی ترقی کے منصوبے تیار کرتے ہوئے انسان کی بنیادی ضرورت پانی کی فراہمی کے مناسب انتظامات پر بھی توجہ دیتے اور ان علاقوں میں پانی کی ضروریات کی تکمیل کے لیے جدید طریقے اختیار کئے جاتے۔
اس طرح نہ صرف یہ کہ ان علاقوں کے لوگوں کو بار بار نقل مکانی اور پانی کی قلت کے دنوں میں اپنے مویشی اونے پونے بیچ کر تہی دست ہونے کاغم نہ سہنا پڑتا بلکہ مویشیوں کی افزائش کی صورت میں ملک گوشت اور دودھ اور دیگر ڈیری مصنوعات میں بھی خود کفیل ہوجاتا اور پاکستان کو دودھ اور ڈیری مصنوعات کی درآمد پر ہرسال لاکھوں ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑتا۔
اسی طرح پانی کی فراہمی کے مناسب انتظامات کی صورت میں علاقے کے لوگ بہت سی بیماریوں سے بھی محفوظ رہ سکتے تھے۔ جبکہ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ علاقے کے لوگ اپنے پینے کے پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سمندر کے پانی کو ابال کر قابل استعمال کرنے کی سعی لاحاصل میں مصروف نظر آتے ہیں۔
زیادہ تر لوگ پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دور دراز علاقوں میں واقع پانی کے چشموں یا آبی ذخائر سے پانی بھر کر لانے والے ٹینکروں سے منہ مانگی قیمت پر پانی خریدنے پر مجبورہیں۔وہی واٹر ٹینکر جو کراچی میںپانچ ہزار روپے کا پڑتا ہے گوادر میں 15 ہزار روپے میں بآسانی دستیاب ہے، جو اَفورڈ نہیں کر سکتے وہ سرکاری واٹر ٹینکر یا پاک بحریہ کے جہاز کا انتظار کرتے ہیں۔ جو بہت جلدی میں ہیں وہ برتن لے کر پانی کی تلاش میں میلوں نکل پڑتے ہیں اور جنہیں بالکل صبر نہیں وہ سمندر سے پانی کا دیگچہ بھر کے ابال لیتے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتاہے کہ حکومت اور پالیسی ساز یہاں تک کہ متعلقہ صوبائی حکام بھی پانی کے اس بحران پر چشم پوشی کیے ہوئے ہیں، جبکہ اگر فوری طورپر مناسب اقدام نہ کیے گئے تو صورتحال مزید بدسے بد ترین ہوجائے گی۔ اس وقت جبکہ چین کی حکومت سی پیک منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کررہاہے، اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنی چاہئے، پانی کے اس بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت کو زیر زمین پانی نکال کر اسے صاف کرکے ذخیرہ کرنے کے انتظامات کرنے چاہئیں۔
جبکہ بارش کی صورت میں بارش کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے اور اس کو ذخیرہ کرنے کامناسب انتظام کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔ حکومت کو پانی کے اس بحران اور مستقبل میں یہ بحران زیادہ شدید ہونے کے بارے میں متعلقہ اداروں کے انتباہات کو نظر انداز کرنے کے بجائے ان پر سنجیدگی سے توجہ دے کر گوادر اور اس کے ارد گرد بچھائے جانے والے ترقی کے جال کو دیرپا بنانے کے لیے علاقے کے غریب اور کم وسیلہ لوگوں کو پانی کی فراہمی کے مناسب انتظامات پر توجہ دینی چاہئے اور یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ گوادر اور اس کے قرب وجوار کی آبادی کی بھاری اکثریت غریب اور کم وسیلہ لوگوں پر مشتمل ہے جو ملک کے مختلف حصوں سے گوادر لایا جانے والا منرل واٹر خریدنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
کوہِ بتیل کے پہلو میں واقع گوادر پورٹ پاکستان کے اقتصادی مستقبل کی کنجی ہے۔ لہٰذاتوقع کی جاتی ہے کہ ارباب حکومت خاص طورپر وزیراعظم سی پیک منصوبے کے کلیدی پراجیکٹ گوادر پورٹ کو پوری طرح آپریٹ رکھنے اور اس شہر میں زندگی کی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے علاقے کے لوگوں کو پانی کی فراہمی کا مناسب اور قابل بھروسہ انتظام کرنے اور اس حوالے سے ہنگامی اقدامات پر توجہ دیں گے۔
کیا آپ نے کبھی ایسے شہر کا تذکرہ سنا جس کے 3 طرف سمندر، اطراف میں کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے 2 پلانٹ، 85 کلومیٹر پر ایک اور 200 کلومیٹر پرے دوسرا ڈیم ہو۔ پھر بھی شہر پینے کے پانی کو ترسے اور میٹھا پانی۔ بحریہ کے جہاز کراچی سے بھر بھر کے لائیں اور گوادری کہیں کہ اکنامک کاریڈور بے شک لے لو مگر پینے کا پانی تو دے دو۔
یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بلوچستان میں کوئی قابلِ ذکر دریا نہیں۔ کبھی بارش ہو جائے تو پہاڑی نالے زمین کاٹ کے رکھ دیتے ہیں اور اس سے پہلے کہ لوگ بارانی وسیلابی پانی جمع کرنے کیلئے دوڑیں پانی غائب ہو جاتا ہے۔ خط مکران میں کہنے کو 6 قابلِ ذکر پہاڑی نالے ہیں مگر بارش ہو جائے تو ان کا پانی بھی سمندر فوراً ضبط کر لیتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں گوادر سے 85 کلومیٹر دور آکڑہ کور ڈیم بننا شروع ہوا تو 1993ء میں اس کا افتتاح بے نظیر بھٹو نے کیا۔
پھر جیسا کہ رواج ہے، ڈیم میں کچھ اسٹرکچرل خامیاں ابھر آئیں تو انکشاف ہوا کہ ناقص میٹریل استعمال ہوا ہے۔ ٹھیکے دار (نیس پاک) نے قرضہ دینے والے ایشین ڈیولپمنٹ بینک کو یہ کہہ کر ڈیم فول بنایا کہ آکڑہ ڈیم اگلے 50 برس تک گوادر شہر کو لگ بھگ 3 ملین گیلن روزانہ پانی سپلائی کرے گا مگر نیس پاک کے جلد باز ٹھیکیدار نے کچھ نہیں کیا۔نتیجہ یہ ہے کہ 2010ء کے بعد سے 17 ہزار ایکڑ جھیل والا یہ ڈیم کسی فاقہ کش آنکھ کی طرح خشک ہے۔
کبھی کبھی آسمان اپنی جیب سے چند آبی سکے اچھال دے تو الگ بات۔ اب تو جھیل بھی برساتی نالوں کے لائے گارے سے بھر چکی اور جس ڈیم کو50 برس زندہ رہنا تھا اس کا 20 برس میں ہی کلیان ہو گیا۔ گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کے مطابق 42 ہزار ایکڑ فٹ پانی کی گنجائش والا سوار ڈیم اور51 ہزار ایکڑ فٹ پانی کی گنجائش والا شادی کور ڈیم بن چکے ہیں۔لیکن اس کے باوجود گوادر کے شہری واٹر ٹینکر مافیاز کے ہاتھوں یرغمال ہیں، گوادر اور آس پاس کے ساحلی علاقوں کی اس وقت کی روزانہ ضروریات 50 لاکھ گیلن ہیں۔
گوادر اور اس کے گرد ونواح کے لوگوں کو پانی کی فراہمی کے لیے تعمیر کئے گئے آکڑہ ڈیم سے پانی کا ختم ہوجانا ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس علاقے میں پانی کے انتظامات پر کبھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی اور نہ صرف یہ کہ علاقے میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے دوسرے چھوٹے آبی ذخائر تعمیر کرنے پر توجہ نہیں دی بلکہ اس ڈیم میں پانی کاوافر ذخیرہ کرنے کے لیے اس کی صفائی اور دیکھ بھال کے انتظامات کرنا بھی ضروری خیال نہیں کیا۔پانی کی شدید قلت پر قابو پانے کے لیے چینی ماہرین کی مدد سے گوادر میں سمندری پانی صاف کرنے کے دو پلانٹ تعمیر کیے گئے ہیں۔
چھوٹا پلانٹ روزانہ دو لاکھ گیلن پینے کا صاف پانی فراہم کر سکتا ہے جبکہ دوسرا پلانٹ ڈیوٹی فری زون میں تعمیر کیا گیا ہے اور یہ روزانہ تقریباً چار لاکھ گیلن صاف پانی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان دونوں پلانٹس کا انحصار جنریٹرز سے حاصل کردہ بجلی پر ہے اور انہیں چلانے کے لیے گوادر میں بجلی بھی ناکافی ہے۔
مکران ڈویژن کو ایران کے جیکی کور گرڈ اسٹیشن سے ایک معاہدے کے تحت بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ جو بعض اوقات وجوہات ظاہر کیے بغیر بند کر دی جاتی ہے یا پھر طویل لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے ،بجلی کی عدم دستیابی کے باعث گوادر، کیچ اور پنجگور کے علاقوں میں لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
بجلی کے بحران کے باعث متاثرہ اضلاع میں پانی کی عدم دستیابی کا معاملہ بھی تشویش ناک شکل اختیار کرگیا ہے اور لوگ پانی کے بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے مکران ڈویژن میں بجلی کی عدم دستیابی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کو ایک خط بھی تحریر کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے اپنے خط میں وزیراعظم کوایرانی حکام سے بجلی کی فراہمی کا مسئلہ اٹھانے اور مکران ڈویژن کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
گوادر سمیت بلوچستان کے مکران ڈویژن کے دو دیگر اضلاع کیچ اور پنجگور نیشنل گرڈ سے منسلک نہیں ہیں۔ان اضلاع سمیت بلوچستان کے ایران سے متصل دو دیگر اضلاع کے سرحدی علاقوں کو ایران سے بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ بجلی کے آنے اور جانے کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں ہے۔
شہر میں عموماً رات بارہ بجے سے صبح آٹھ بجے تک بجلی ہوتی ہے جبکہ دیہی علاقوں میں زیادہ تر نہیں ہوتی ہے۔اس وقت زندگی کا دارومدار بجلی پر ہے۔ اگر بجلی نہ ہو تو زندگی کا ہرشعبہ متاثر ہوتا ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے جہاں گھروں میں گرمی کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہاں لوگوں کا روزگار بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔
گوادر کی مقامی آبادی کی اکثریت کے روزگار کا دارومدار ماہی گیری پر ہے۔ نہ صرف چین کے فشنگ ٹرالروں کو بلوچستان کے سمندری حدود میں ماہی گیری کی اجازت دی گئی ہے بلکہ سندھ کے ٹرالر بھی یہاں آرہے ہیں۔چین کے چالیس ٹرالر اور سندھ کے 300ٹرالر بلوچستان کی سمندری حدود میں ٹرالنگ کرتے ہیں۔ ان کے پاس ایسے جال ہیں جو کہ مچھلیوں کی نسل کشی کر رہے ہیں۔بلوچستان کے سمندری حدود میں چین کے فشنگ ٹرالروں کی یلغار گوادر کے ماہی گیروں کومعاشی بدحالی کا شکار کر رہی ہے۔
کچھ عرصہ قبل میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی نے کارروائی کر کے 6 چینی ٹرالروں کو پکڑا تھا۔ پکڑے گئے چینی ٹرالروں میں وہی مچھلیاں تھیں جو کہ بلوچستان کے سمندری حدود میں پائی جاتی ہیں۔ چینی فشنگ ٹرالر بلوچستان کے سمندری حدود میں ماہی گیری کرنے کے دوران جوجال استعمال کرتے ہیں اس پر بلوچستان حکومت نے پابندی عائد کی ہے۔
گوادر کے ماہی گیروں کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کی سمندری حدود میں چینی فشنگ ٹرالروں کو ماہی گیری کے لیے جو این او سی دیا گیا ہے اس کو منسوخ کیا جائے اور گوادر میں ماہی گیروں کے جتنے بھی علاقے ہیں ان میں غیر قانونی ماہی گیری روکی جائے۔ گوادر سمیت بلوچستان کے دیگر کئی علاقوں میں وزٹ کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ بلوچ عوام بلوچستان کی ترقی کے مخالف نہیں ہیں لیکن یہ کیسی ترقی ہے جس سے باقی صوبوں کے لوگ تو استفادہ حاصل کر رہے ہیں لیکن مقامی بلوچ محروم ہیں۔
بلوچستان سمیت وفاقی حکومت نے بلوچستان کی عوام کا احساس محرومی دور کرنے کے لیے کبھی بھی کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا ہے۔بلوچستان کے عوام کو ملک کے دیگر حصوں میں بسنے والے لوگوں کی طرح برابری کے حقوق ملنے چاہیں۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پا ک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا منصوبہ بلوچستان کی تقدیر تبدیل دے گا لیکن اس منصوبے کے تحت وفاقی حکومت کوعوام کے لیے پینے کے صاف پانی اور بجلی و گیس کی فراہمی کو اولین ترجیح دینی چاہیے، کیونکہ جب تک گوادر کی عوام کو ضروریات زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہوگی بلوچستان کی ترقی کا خواب ادھورے ہی رہے گا۔