تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

سی پیک دہشت گرودں کے نشانے پر

CPEC Dehshat gardon k nishane par
  • محمد قیصر چوہان
  • اپریل 8, 2024
  • 7:17 شام

بلاشبہ قوم کو اپنے شہدا پر فخر ہے کہ جنھوں نے ملکی دفاع و سلامتی کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کی ہیں۔

بلوچستان اور خیبرپختونخوا گزشتہ چند برس سے دہشت گردی کا شکار ہیں ۔افغانستان اور ایران کی سرزمین سے بھی پاکستان میں مسلسل دہشت گردی کی کارروائیاں جاری ہیں۔لیکن جب حکومت پاکستان نے وطن عزیز میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا اس کے بعد سے پاک سرزمین پر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔گزشتہ مہینے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے اور انھیں کیفرکردار تک پہنچانے والے پاک فوج کے جوانوں کی شہادت اورپاکستان کی طرف سے افغان علاقے میں گھس کر وہاں چھپے ہوئے دشمن حافظ گل بہادر گروپ کے 8دہشت گرد ہلاک کرنے کے بعددشمن کی طرف سے حملوں میں شدت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔پاک چین دوستی کا مظہر بڑا گیم چینجر منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری ”سی پیک“ دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔اس کے علاوہ پاکستانی فورسز پر بھی حملے جاری ہیں۔گزشتہ مہینے کی 20 تاریخ کو سی پیک کے مرکز گوادر میںکالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے دہشت گردوں نے شام کو گوادر جی ڈی اے کمپلیکس میں فائرنگ اور دستی بموں سے حملہ کرتے ہوئے اندر گھسنے کی کوشش کی تاہم سیکورٹی فورسز نے بروقت جوابی کارروائی کرتے ہوئے حملہ ناکام بنا یا۔ دہشت گردوں نے شدید فائرنگ کی، سیکورٹی فورسز کے جوانوں نے جرا ¿ت اور بہادری سے جوابی کارروائی کرتے ہوئے کالعدم تنظیم کے 8 دہشت گرودں کو ہلاک کر دیا ۔جی ڈی اے کمپلیکس تقریباً 60 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس میں متعددعمارتوں میں گوادر پورٹ اتھارٹی کے 60 سے زائد پاکستانی ملازمین کے خاندان رہائش پذیر ہیں،جی ڈی اے کمپلیکس میں گوادرر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، سکیورٹی فورسز سمیت کئی سرکاری اداروں کے دفاتر بھی قائم ہیں ۔اس واقع کے 7 دن بعد یعنی 27 مارچ بروز منگل کی دوپہر خیبرپختونخوا کے ضلع شانگلہ میں بشام کے مقام پر دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی چینی قافلے سے ٹکرادی ،خود کش حملے کے نتیجے میں5چینی انجینئرز ہلاک اوران کا پاکستانی ڈرائیورجاں بحق ہوگیا۔اس واقع کے بعد چائنہ پاور کمپنی جو تربیلاایکسٹینشن فائیو منصوبے کے علاوہ پاکستان میں باشا ڈیم منصوبہ بنانے سمیت مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہے نے اپنا کام روک دیا۔چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) سجاد غنی نے داسو پروجیکٹ کے دورے کے موقع پر چینی سفیر کے ہمراہ پروجیکٹ سائٹ کا دورہ کیا تھا اور چینی ورکرز کا اعتماد بحال کرنے کے لیے کئی گھنٹے ان کے ساتھ گزارے اور انہیں ہر قسم کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی۔اس کے باوجودکمپنی حکام نے-

سکیورٹی خدشات کے باعث سائٹ اور دفاتر میں کام روک دیا ہے۔مختلف ترقیاتی منصوبے پر کام کرنے والے چینی ہنر مندوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی یہ پہلی واردات نہیں ہے داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی ہنرمندوں پر اس سے پہلے بھی حملہ ہوچکا ہے۔ ایسے دہشت گردانہ حملوں کی اذیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب یہ دیکھتے ہیں کہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے لیے ملک کے مہمانوں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات طویل عرصے سے پیش آرہے ہیں۔ دہشت گردی کی موجودہ لہر کا ہدف خاص طور پر چین کے منصوبے نظر آتے ہیں۔ یہ سانحات کراچی سے لے کر تربت تک پیش آتے ہیں۔ داسو ہائیدرو پاور پروجیکٹ جیسے دور دراز علاقوں میں بھی دہشت گرد پہنچ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق حال ہی میں بھارتی بدنام زمانہ انٹیلی جنس ادار ے ”را“ نے پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے لیے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے چار دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ انضمام کے لیے 10لاکھ ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی ہے بھارت افغانستان میں تھنک ٹینکس اور دیگر ذرائع سے بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھی رقم فراہم کرکے ان کی مالی اعانت کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ مختلف جی پی ایس کے ذریعے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں پر حملے کروا کے ان منصوبوں کی پیش رفت رکوانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ افغانستان سے 23 دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جن میں سے 17 دہشت گرد تنظیمیں صرف پاکستان میں دہشت گردی پھیلاتی ہیں۔

پاکستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی کے بارے میں پاکستان کی طرف سے پہلے ہی ایک ڈوزیئر جاری کیا جا چکا ہے جس میں انتہائی مخصوص معلومات جیسے بینک اکاو ¿نٹس اور اس میں ملوث بھارتی شہریوں کے شواہد موجود ہیں جو دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ اس ڈوزیئر میں ٹی ٹی پی، بلوچ شرپسندوں اور دیگر گروپوں کے تربیتی کیمپوں کی تعداد اور مقامات بھی شامل ہیں۔بھارتی ایجنسیز کی خطے میں دہشت گردی پھیلانے کا ثبوت قطر میں بھارتی بحریہ کے اہلکاروں کی سزا ہے اور کینیڈا میں سکھ رہنما کا قتل دوسرا اعلانیہ ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے کلبھوشن یادو کو پکڑا ہوا اور سزا بھی سنائی جاچکی ہے۔بھارتی دہشت گردی سے بی این پی کے کمانڈر نے نقاب کھینچ دی تھی ۔گزشتہ برس 20 دسمبر کو کالعدم تنظیم بی این اے کے کمانڈر سرفراز احمد بنگلزئی اپنے 72 ساتھیوں سمیت کالعدم بی این اے سے علیحدہ ہوکر قومی دھارے میں شامل ہونے کا باقاعدہ اعلان نگراں صوبائی وزیرداخلہ میر زبیر جمالی اورنگراں صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی کے ہمراہ سول سیکرٹریٹ کوئٹہ کے سکندر جمالی آڈیٹوریم میں پریس کانفرنس کر تے ہوئے کیاتھا۔ سرفراز احمد بنگلزئی نے انکشاف کیا تھا کہ بلوچستان کا امن تباہ کرنے کے لیے پاکستان کا ازلی دشمن ملک بھارت فنڈنگ کرتا ہے اس کے علاوہ مزاحمتی تحریک اور کالعدم تنظیمیں منشیات فروشی،بھتہ خوری اورلوگوں کو اغوا بھی کرتی ہیں کچھ لوگ مذموم مقاصد کے لیے بلوچ ماﺅں، بہنوں اور بلوچ سادہ لوح نوجوانوں کو ریاست کیے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

CPEC Dehshat gardon k nishane par

پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائی کی منصوبہ سازی اور دہشت گردوں کی تربیت افغانستان کی سرزمین پر ہو رہی ہے، یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے بلکہ پوری طرح آشکار ہو چکی ہے۔ کئی باردہشت گرد حملہ آوروں کی تعداد درجنوں میں دیکھی گئی ہے۔افغانستان کا جنوبی حصہ جس کی سرحد پاکستان کے سابقہ فاٹا سے ملتی ہے، دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ جنت کا کام دے رہا ہے، جہاں وہ کسی روک ٹوک کے بغیر پوری آزادی کے ساتھ اپنے تربیتی مراکز چلا رہے ہیں، افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام بعد ان تنظیموں کے لیے حالات سازگار ہوگئے ہیں۔اسی لیے تحریک طالبان سے الگ ہونے والے گروپ اور کئی اس کی سسٹر آرگنائزیشنز متحد ہوچکے ہیں، ان گروپس کی جڑیں خیبر پختون خوا سمیت ملک کے دیگر حصوں تک پھیلی ہوئی ہیں، اپنے سہولت کاروں اور انفارمرز کی مدد سے ٹی پی ٹی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں منظر عام پر آتی رہتی ہے، گزشتہ دنوں بھی افغانستان میں ایک مدرسے کی تقریب میں ٹی ٹی پی قیادت نے شرکت کی تھی، ان کی تصاویر بھی میڈیا میں سامنے آچکی ہیں۔ درحقیقت پاکستان کے پالیسی ساز طویل عرصے تک افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان تعلقات کی گہرائی اور وسعت پزیری سے لاعلم رہے یا مصلحتاً اسے نظر انداز کرتے رہے ہیں۔افغانستان میں امریکا اور سوویت یونین کی جنگ اور بعد میں دہشت گردی خلاف جنگ نے وسط ایشیاء، جنوبی ایشیا اور ایران و مشرق وسطیٰ کے خطے کو کئی پہلوﺅںسے متاثر کیا ہے۔اس سارے خطے میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا رجحان بڑھ گیا، غیرقانونی کاروبار کو فروغ حاصل ہواجس کی وجہ سے بلیک اکانومی کا پھیلاوﺅخطرناک حد تک بڑھ گیا، ریاستی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کے لیے ناجائز دولت کا بے دریغ استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے بیوروکریسی، نظام انصاف کی کارکردگی میں کمی آئی اور کرپشن بڑھی۔

افغانستان بطور ریاست زوال کا شکار ہوگیا، کابل اور دیگر شہروں میں جو تھوڑا بہت انفرااسٹرکچرتھا، وہ تباہ ہوگیا، پورا ملک وارلارڈ میں تقسیم ہوگیا، کوئی آئین اور قانون نہیں رہا، غیرملکی سرمایہ کاری کا نام و نشان مٹ گیا، سیاحت جو افغانستان کے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہوا کرتا تھا، وہ مکمل طور پر بند ہوگیا۔ پاکستان کی معیشت اور سیاست بھی اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ٹی ٹی پی اور دیگر ایسے عناصر کے خلاف ماضی میں کارروائیاں تو ہوئیں لیکن دہشت گردی کی جڑیں ختم کرنے کے لیے کوئی طویل المدت پالیسی نہیں بنائی گئی۔ پاکستان میں دہشت گردی کی بیشتر وارداتوں میں افغانستان سے آنے والے دہشت گرد ملوث ہیں جنھیں یہاںافغان مہاجرین کے بھیس میں چپھے ہوئے سہولت کاروں کی مدد حاصل ہوتی ہے، بعض پاکستانی باشندے بھی لاعملی، مالی لالچ یا دیگر مفادات کے باعث سہولت کاری میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغانیوں اور دوسرے باشندوں کی ان کے ممالک واپسی پر کسی قسم کی مفاہمت یا نرم رویہ اختیار کرنے کی ہرگز گنجائش نہیں نکلتی۔ افغان شہریوں کا پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال ہونا، ملک کی سا لمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ افغان عبوری حکومت کو اس پہلو پر ضرور غور کرنا چاہیے کیونکہ شر پسند اور دہشت گرد عناصر افغانستان کے بھی ہمدرد نہیں ہیں۔ افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کے لیے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کیونکہ افغانستان کے طالبان کی ملک کے اندر بھی شدید مخالفت اور مزاحمت موجود ہے۔

افغانستان کی غیرملکی تجارت کا انحصار پاکستان کی بندرگاہیں ہیں۔افغانستان کی طالبان حکومت کو ٹی ٹی پی کی خاطر اتنا آگے نہیں جانا چاہیے کہ پاکستان تجارتی بندشوںپر مجبور ہو جائے۔یقیناً افغانستان کی عبوری حکومت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو حالات کی نزاکت سے آگاہ ہیں ‘ وہ پاکستان کے ساتھ بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہتے لیکن شاید وہ اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ شرارتی عناصر کی سرکوبی کر سکیں۔افغانستان میںجو دہشت گرد گروپ موجود ہیں‘ان کا مفاد انتشار اور خانہ جنگی کے ساتھ وابستہ ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ایک مضبوط اور مستحکم حکومت قائم نہ ہو سکے کیونکہ کوئی بھی مضبوط اور مستحکم حکومت ملک میں وار لارڈز اور دہشت گرد تنظیموں کا وجود برداشت نہیں کر سکے۔اس لیے افغانستان میںایسے گروپ موجود ہیں جن کی روزی روٹی دہشت گردی سے وابستہ ہے اور وہ اس وقت ہی آزادانہ کام کر سکتے ہیں جب کسی خطے میں حکومت کی رٹ نہ ہو اور ریاست کا کوئی مستحکم نظام انصاف نہ ہو اور نہ متحرک انتظامیہ ہو اور نہ ہی ایک تربیت یافتہ پروفیشنل آرمی موجود ہو‘افغانستان میں موجود دہشت گردگروہ افغانستان کو ایک سرزمین لاقانونیت کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔لہٰذا افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کو پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کرنے کے بجائے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے تعاون کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔سرحدی ایشوز یا تجارتی معاملات بعد میں بھی مذاکرات کے ذریعے طے ہو سکتے ہیںلیکن دہشت گرد گروپوں کے ہاتھوں بلیک میل ہونا یا دہشت گردی کو بطور ہتھیار پروموٹ کرنا،افغانستان کی تباہی کے سوا کوئی نتیجہ نہیں دے سکتی۔افغان طالبان اور دوسرے انتہاءپسند گروپوں کی جانب سے پاکستان میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا گیا اور پھر افغانستان سے پاکستان آنیوالے تحریک طالبان کے لوگوں نے پاکستان میں بھی تحریک طالبان کو دوبارہ منظم کیا اور یہاں ملک کے مختلف علاقوں میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا کر دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا جن میں بطور خاص ہمارے سیکیورٹی اداروں کے ارکان، تنصیبات اور سیاسی و دینی شخصیات کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جانے لگا۔

اس دہشت گردی میں ہمارے 80 ہزار سے زائد شہریوں بشمول سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں ہو چکی ہیں اور ہماری معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان الگ سے اٹھانا پڑا ہے ، جب کہ ہمارے ساتھ خدا واسطے کا بیر رکھنے والے کابل کے حکمرانوں کو بھی ہماری انھی اندرونی کمزوریوں کے باعث ہماری سلامتی کے خلاف سازشیں پروان چڑھانے کا موقع ملا جو طالبان دہشت گردوں کو پاک افغان سرحد عبور کرانے کی سہولت کاری کرتے رہے۔ہمیں طالبان کی موجودہ کابل انتظامیہ سے پاکستان اور خطے میں قیام امن کے لیے کردار ادا کرنے کی اس لیے توقعات وابستہ ہوئی تھیں کہ پاکستان کی جانب سے امریکا اور طالبان کے مابین امن عمل کے لیے موثر کردار ادا کرنے کے نتیجہ میں ہی امریکا کے افغانستان سے انخلاءاور طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کی راہ ہموار ہوئی مگر ان کی جانب سے ہمیں ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا آنے کے بجائے بدترین دشمنی پر مبنی پیغامات موصول ہونا شروع ہو گئے جس کے ذریعے نہ صرف پاکستان کی تضحیک کا اہتمام کیا گیا بلکہ دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے کی بھی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ چنانچہ گزشتہ دو سال سے ہم بالخصوص افغانستان سے پاکستان داخل ہونیوالے دہشت گردوں کی وارداتوں کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔دہشت گرد تنظیمیں اس قدر طاقتور ہو چکی ہیں کہ ملک کے مختلف شعبوں میں ان کے ہمدرد اورسہولت کار موجود ہیں، جب تک دہشت گردوں کو اندرون ملک سہولت کاری ملتی رہے گی تب تک دہشت گردی پر قابو پانا مشکل امر ہے اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی قانون کے شکنجے میں لایا جائے۔ دہشت گرد تنظیمیں بین الاقوامی طاقتور ممالک اور ملکی سطح پر حکومتوں کواپنے مطالبات منظور کرنے پر مجبورکر رہی ہیں۔تمام ممالک کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ موقف اپنانا اور ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔پاکستان نے غیر دستاویزی تارکین وطن کی اپنے وطن واپسی کے بعد رجسٹرڈ افغان تارکین وطن کو بھی ملک بدر کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ پالیسی عسکریت پسندوں کی جانب سے افغانستان کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کے جواب میں تیار کی گئی ہے۔پاکستان گزشتہ 40 برسوں سے تقریباً 50 لاکھ افغان مہاجرین کی انتہائی سخاوت سے میزبانی کررہا ہے اور موجودہ صورتحال کی وجہ سے مہاجرین کی واپسی ضروری ہے۔

پاکستان میں گزشتہ 45 سال سے مقیم افغان مہاجرین کی ہے جو یہاں ناجائز کاروبار،بھتہ خوری اور دہشت گردی کی وارداتوں تک میں ملوث تھے۔ پاکستان کے اس فیصلے پر بھی کابل انتظامیہ کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور اس فیصلے کی مزاحمت کا عندیہ دیا گیا۔اس لیے اب غیرقانونی مقیم افغانوں کو پاکستان سے نکالنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو ممکنہ طور پر یہ طالبان کا وہی ردعمل ہو سکتا ہے جس کا کابل کی طالبان انتظامیہ کی جانب سے عندیہ دیا گیا تھا جب کہ ملک کے دو صوبوں میں دہشت گردی کی وارداتیں ہونا بھی معنی خیز ہے۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت طالبان دہشت گردوں کو سہولتیں فراہم کی جاتی رہیں جو اس پارٹی کے تخریبی، احتجاجی مظاہروں میں بھی شریک ہوتے رہے۔میدان جنگ ہو یا پر امن حالات دونوں میدانوں میں ملکی اوربین الاقوامی سطح کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان مذہبی دہشت گردتنظیموں کاقلع قمع کرنے کے لیے فوجی آپریشن نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح ملکی قوانین میں ضروری قانون سازی نہایت اہم ہے جس کے ذریعے ان مذہبی عسکریت پسند تنظیموں کے دہشت گردوں کو گرفتار کر کے قرار واقعی اور فوری نوعیت کی سزائیں دی جاسکیں۔تعلیمی یا سیاسی سطح پر ایسی تبدیلیاں لانا ناگزیر ہے جو دہشت گردی کے بیانیہ کا مقابلے کرتے ہوئے اس کے خاتمے کا سبب بنے۔ اسی طرح بِلاتخصیص تمام غیرملکی فنڈز جو کسی بھی سطح پر کسی تنظیم کے لیے آرہے ہیں انھیں فوراً بند کیا جائے۔سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی مزید بہتر اور منظم بنانا ہوگی، سرحدوں کے نگرانی اور اہم سول و عسکری تنصیبات کی سیکیورٹی فول پروف بنانا ہوگی، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نیٹ ورک کو مزید موثر بنانا ہوگا۔ پاکستان پہلے بھی دہشت گردی کے جن کو قابو کرچکا ہے اور اس بار بھی ان شاءاللہ جلد اس کا خاتمہ ہوگا، کوئی دہشت گرد اور ان کا سہولت کار نہیں بچے گا۔

CPEC Dehshat gardon k nishane par

بلاشبہ قوم کو اپنے شہدا پر فخر ہے کہ جنھوں نے ملکی دفاع و سلامتی کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کی ہیں۔ پاکستان دشمن عناصر ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکنے کے لیے ایک بار پھر سرگرم عمل ہیں اور ہماری سیکیورٹی فورسز ان کے ارادوں کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ افغان طالبان چونکہ افغانستان پر بغیر انتخابی اور جمہوری عمل کے قابض ہوئے ہیں، اسی لیے وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔یہ خیال درست ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی کی وجہ سے وہ دہشت گرد عناصر متحرک ہوگئے ہیں جن کے ٹھکانے سرحد پار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کے تانے بانےافغانستان سے جا ملتے ہیں، لیکن یہ ماضی میں اپنائی گئی پالیسیوں کا خمیازہ ہے جو آج ہم بھگت رہے ہیں۔

پاکستان گزشتہ 25 برس سے خوفناک دہشت گردی کا سامنا کررہا ہے، دہشت گردی کے عفریت کو ختم کرنے کے لیے افواج پاکستان نے وسیع تر امن کے قیام کے لیے ضرب عضب اور رد الفساد ایسے نہایت موثر آپریشن کیے جن میں بہت اہم کامیابیاں حاصل ہوئیں اور انتہائی مطلوب دہشت گرد مارے گئے، گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی نے ایک بار پھر ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ دہشت گردوں کا ایک بار پھر منظم اور فعال ہوکر سیکیورٹی فورسز پر حملے کرنا لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ جیتی تھی وہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد ایک بار پھر شروع ہو چکی ہے۔اس وقت سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں ان دہشت گردوں کو جو لوگ سپورٹ کرتے ہیں، انھیں پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں، ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں، ان سب کو نہایت سرعت کے ساتھ بے نقاب کر کے عوام کے سامنے لایا جائے، انھیں قانون کے شکنجے میں کس کر کڑی سے کڑی سزا دی جائے، ویسے بھی ملک دشمنوں کے ساتھ کسی بھی ملک اور معاشرے میں رعایت نہیں برتی جاتی ورنہ یہ جب بھی موقع ملے سر اٹھانے میں تاخیر نہیں کرتے۔ اس وقت افغانستان میں قائم حکومت کی کارکردگی اور رویے کے حوالے سے متعدد سوالات جنم لے رہے ہیں۔ افغان طالبان کی موجودہ حکومت جسے پاکستان نے ہر قدم پر سہارا دیا، اس مقام تک پہنچایا، انھیں عالمی اداروں اور بڑی طاقتوں کے سامنے بٹھایا تاکہ مسئلہ افغانستان کے حل کی راہ ہموار ہو، دوحہ امن مذاکرات میں سہولت کاری کی تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو، وہاں کی تباہ شدہ معیشت بحال ہو، مگر ان تمام کاوشوں کے بدلے میں افغانستان کی موجودہ حکومت نے جواب میں ہمیں کیا دیا، دہشت گردی، الزام تراشی اور ہمارے دشمنوں کی درپردہ حمایت۔افغان طالبان دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی پورے افغانستان پر حکومت قائم ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغان حکومت کی رٹ کہاں ہے؟

آخر پاکستانی طالبان جو افغانستان سے آکر یہاں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں اور پھر فرار ہوجاتے ہیں، انھیں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں اور تربیتی مراکز کی سہولت کیوں میسر ہے، جہاں سے وہ ہماری سرحدوں کے محافظوں کو اور شہری و دیہی علاقوں کو نشانہ بناتے ہیں، اگر افغانستان کی موجودہ حکومت مخلص ہو تو کسی نام نہاد فسادی تنظیم میں طاقت نہیں ہے کہ وہ افغان علاقے سے پاکستانی علاقوں کو نشانہ بنائے، اگر افغان طالبان کی گرفت کسی علاقے پر کمزور ہے تو پھر وہ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرکے کوئی لائحہ عمل ترتیب دینے سے کیوں اجتناب برت رہی ہے؟ افغانستان حکومت کے سرکردہ رہنماو ¿ں کو سرجوڑ کر بیٹھ ہونا ہوگا، فہم و فراست اور تدبر سے ایسے فیصلے کرنے ہوں گے، جن سے ان کے معاشی حالات درست ہوسکیں، افغانستان کے اندر موجود دہشت گردوں کی ٹھکانوں کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ افغان طالبان جتنی جلدی اس بات کا ادراک کرلیں کہ کوئی بھی ملک دنیا سے کٹ کر یا لاتعلق رہ کر ترقی و خوشحالی کا سفر طے نہیں کرسکتا۔ سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی مزید بہتر اور منظم بنانا ہوگی، سرحدوں کے نگرانی اور اہم سول و عسکری تنصیبات کی سیکیورٹی فول پروف بنانا ہوگی، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نیٹ ورک کو مزید موثر بنانا ہوگا۔ پاکستان پہلے بھی دہشت گردی کے جن کو قابو کرچکا ہے اور اس بار بھی ان شاءاللہ جلد اس کا خاتمہ ہوگا، کوئی دہشت گرد اور ان کا سہولت کار نہیں بچے گا۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان