ایف پی سی سی آئی بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم اور آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے اور زراعت کے بعد سب سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنے والا ٹیکسٹائل سیکٹر مشکلات سے دوچار ہے اور اگر اسے فوری بیل آؤٹ نہ کیا گیا تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مختلف شعبے زوال کا شکار ہیں جبکہ تشویشناک معاشی حالات کی وجہ سے کاٹن جننگ انڈسٹری تباہی کے دہانے تک پہنچ گئی ہے جسے بندش سے بچانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ اس وقت 20 ارب روپے مالیت کی پانچ لاکھ گانٹھیں کھلے آسمان تلے پڑی ہیں اور مارکیٹ میں ان کا کوئی خریدار نہیں ہے کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے طویل لاک ڈاؤن اور دیگر وجوہات کی بنا پر بہت سی ملیں بند پڑی ہیں۔
ٹیکسٹائل ملوں کی بندش سے ان پر جنرز کے واجب الادا 30 ارب روپے بھی پھنسے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے جننگ ملیں کپاس کے لاکھوں کاشتکاروں کو ادائیگی کرنے سے قاصر ہیں۔ اگرحکومت ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے ذریعے یہ کپاس خرید لے تو جننگ فیکٹریاں بحران سے نکل سکتی ہیں اور کپاس کے کاشتکاروں کو ادائیگیاں بھی کی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کپاس کے بیج، کھل، بنولہ اور دیگر اشیاء کو سیلز ٹیکس سے مبراء قرار دیا جائے، گزشتہ دس سال سے پھنسے ہوئے ودھولڈنگ ٹیکس ریفنڈز ادا کئے جائیں، یکم جنوری سے تیس جون 2020ء تک قرضوں پر واجب الادا سود معاف کیا جائے اور روئی کا جو اسٹاک جنرز کے پاس موجود ہے اسے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں سے مکمل چھوٹ دی جائے تاکہ وہ اسے فروخت کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اسی طرح گروی رکھے ہوئے اسٹاک کو فروخت کرنے کی اجازت دی جائے اور بینک گارنٹی کی ایڈجسٹمنٹ میں ایک سال کی مہلت دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ جننگ سیکٹر کی اہمیت کے پیش نظر اسے بھی 10 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کی جائے اور دیگر مراعات بھی دی جائیں تاکہ اسے بند ہونے سے بچایا جا سکے۔ اگر جنرز کے مسائل حل کرنے میں تاخیر کی گئی تو کسانوں کو ادائیگیاں نہیں ہو سکیں گی جس سے کپاس میں ان کی دلچسپی کم ہو جائے گی جبکہ بہت سے کاشتکار دیگر فصلیں اُگا لیں گے جس سے پیداواری ہدف متاثر ہوگا۔ اس کے اثرات شدید ہوں گے کیونکہ 60 فیصد برآمدات اور کروڑوں نوکریوں کا تعلق کاٹن اکانومی سے ہے۔