تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

کپاس کے شعبے پر توجہ نہ دینے سے ایک دہائی میں 36 ارب ڈالر نقصان

Cotton collapse hurting economy more than virus, circular debt
  • واضح رہے
  • جنوری 14, 2021
  • 1:58 صبح

نظر انداز کرنے سے معیشت کو کورونا وائرس سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ میاں زاہد حسین نے بااختیار کاٹن کنٹرول بورڈ تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا

کراچی: ایف پی سی سی آئی کے نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ کپاس کے شعبہ پر بھرپور توجہ نہ دی گئی تو یہ ملکی معیشت کو کرونا وائرس، ناکام سرکاری اداروں اور گردشی قرضہ سے زیادہ نقصان پہنچائے گا۔

کپاس کا زیر کاشت رقبہ اور اس کی پیداوارگزشتہ دس سال سے مسلسل گر رہی ہے جو اب پچپن لاکھ گانٹھ رہ گئی ہے۔ کپاس کی حالت زار سے گزشتہ ایک دہائی میں ملکی معیشت کو ایک اندازے کے مطابق 36 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ اس سے درآمدی اخراجات بے روزگاری اور کاٹن بیلٹ میں کاشتکاروں کی بدحالی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کپاس کے شعبہ کی وجہ سے سالانہ دو ارب ڈالرکا براہ راست اور آٹھ ارب ڈالر کا ان ڈائریکٹ نقصان ہو رہا ہے۔ بنولے کے تیل کی مد میں سات سو ملین ڈالر اور کاٹن سیڈ کیک کی مد میں ڈیڑھ ارب ڈالر کانقصان ہو رہا ہے۔

کپاس کی چنائی کے بعد بچنے والے پودوں کو بطور ایندھن جلایا جاتا ہے جو دستیاب نہ ہو تو لکڑی استعمال کی جاتی ہے، جس سے جنگلات کا رقبہ کم ہو رہا ہے۔ کپاس کے بحران نے کاشتکاروں سے لے کر ویلیو ایڈڈ سیکٹر تک سب کو متاثر کیا ہے۔ ملک کی 1200 سے زائد جننگ فیکٹریوں میں سے 60 فیصد بند ہو چکی ہیں جس سے لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم عمران خان صورتحال کا نوٹس لیں اور فوری طور پر ایک با اختیار کا ٹن کنٹرول بورڈ تشکیل دیں جس کی نگرانی وہ خود کریں تاکہ کپاس کی پیداوار کو 5.5 ملین گانٹھ سے بڑھا کر 20 ملین گانٹھ تک پہنچایا جا سکے۔

یہ بورڈ کپاس کے سرٹیفائیڈ بیج بوائی کھاد کیڑے مار ادویات اور پانی کے استعمال چنائی جننگ سپننگ اور ویلیو ایڈیشن تک تمام معاملات کی نگرانی کر ے اور تمام شراکت داروں کے مفادات کی نگہ بانی کرے۔

کپاس کی پیداوار کے لئے مشہور علاقوں میں کوئی بھی دوسری فصل اگانے پر پابندی عائد کی جائے، جننگ انڈسٹری کے لئے بجلی رعایتی ٹیرف پر مقرر کی جائے اور کپاس کی امدادی قیمت کا اعلان کیا جائے۔ میاں زاہدحسین نے مذید کہا کہ اس سارے معاملے میںکاٹن جنرز ایسوسی ایشن کواعتماد میں لے کر صورتحال کوبہتر بنایا جاسکتا ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے