کراچی: ایف پی سی سی آئی کے نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ کپاس کے شعبہ پر بھرپور توجہ نہ دی گئی تو یہ ملکی معیشت کو کرونا وائرس، ناکام سرکاری اداروں اور گردشی قرضہ سے زیادہ نقصان پہنچائے گا۔
کپاس کا زیر کاشت رقبہ اور اس کی پیداوارگزشتہ دس سال سے مسلسل گر رہی ہے جو اب پچپن لاکھ گانٹھ رہ گئی ہے۔ کپاس کی حالت زار سے گزشتہ ایک دہائی میں ملکی معیشت کو ایک اندازے کے مطابق 36 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ اس سے درآمدی اخراجات بے روزگاری اور کاٹن بیلٹ میں کاشتکاروں کی بدحالی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔
میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کپاس کے شعبہ کی وجہ سے سالانہ دو ارب ڈالرکا براہ راست اور آٹھ ارب ڈالر کا ان ڈائریکٹ نقصان ہو رہا ہے۔ بنولے کے تیل کی مد میں سات سو ملین ڈالر اور کاٹن سیڈ کیک کی مد میں ڈیڑھ ارب ڈالر کانقصان ہو رہا ہے۔
کپاس کی چنائی کے بعد بچنے والے پودوں کو بطور ایندھن جلایا جاتا ہے جو دستیاب نہ ہو تو لکڑی استعمال کی جاتی ہے، جس سے جنگلات کا رقبہ کم ہو رہا ہے۔ کپاس کے بحران نے کاشتکاروں سے لے کر ویلیو ایڈڈ سیکٹر تک سب کو متاثر کیا ہے۔ ملک کی 1200 سے زائد جننگ فیکٹریوں میں سے 60 فیصد بند ہو چکی ہیں جس سے لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم عمران خان صورتحال کا نوٹس لیں اور فوری طور پر ایک با اختیار کا ٹن کنٹرول بورڈ تشکیل دیں جس کی نگرانی وہ خود کریں تاکہ کپاس کی پیداوار کو 5.5 ملین گانٹھ سے بڑھا کر 20 ملین گانٹھ تک پہنچایا جا سکے۔
یہ بورڈ کپاس کے سرٹیفائیڈ بیج بوائی کھاد کیڑے مار ادویات اور پانی کے استعمال چنائی جننگ سپننگ اور ویلیو ایڈیشن تک تمام معاملات کی نگرانی کر ے اور تمام شراکت داروں کے مفادات کی نگہ بانی کرے۔
کپاس کی پیداوار کے لئے مشہور علاقوں میں کوئی بھی دوسری فصل اگانے پر پابندی عائد کی جائے، جننگ انڈسٹری کے لئے بجلی رعایتی ٹیرف پر مقرر کی جائے اور کپاس کی امدادی قیمت کا اعلان کیا جائے۔ میاں زاہدحسین نے مذید کہا کہ اس سارے معاملے میںکاٹن جنرز ایسوسی ایشن کواعتماد میں لے کر صورتحال کوبہتر بنایا جاسکتا ہے۔