بریڈ فورڈ رائل انفرمری کے ڈاکٹر جان رائٹ نے اینستھیزیا دینے والی ایک ایشیائی نژاد ڈاکٹر سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ انھیں کس وجہ سے گالم گلوچ سے بھرپور پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔
ہسپتال میں ان برادریوں کے مریضوں کو الگ تھلگ رکھنے کی وجہ سے جھوٹی افواہوں کو ہوا ملی ہے۔ ملک بھر کے شہروں میں ایسا ہو رہا ہے اور بریڈ فورڈ اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
کبھی کبھی یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ سیاہ فام، ایشیائی اور دیگر نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے مریضوں میں موت کی شرح اس لیے زیادہ ہے کیونکہ انھیں وہی عملہ ہلاک کر رہا ہے جنھیں ان کی مدد کرنی چاہیے۔
تاہم مسلمان معالجین کے لیے یہ بات زیادہ باعث کلفت ہے کہ اس طرح ان کی لگن اور پیشہ ورانہ مہارت پر سوال اٹھئے جا رہے ہیں جبکہ جو رمضان کے مقدس مہینے میں کووڈ وارڈز میں روزے کی حالت میں انھیں لمبی لمبی شفٹوں میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔
میری ساتھی فوزیہ حیات، جو کہ اینستھیزیا کی کنسلٹنٹ ہیں، انھوں مجھے بتایا کہ انھیں حال ہی میں ایک مقامی شخص سے ایک نہایت ہی بغض و عناد سے بھرا ہوا بے وقوفانہ پیغام موصول ہوا تھا۔
اس کا پسِ منظر کچھ یوں تھا کہ چند روز قبل فوزیہ کے شوہر نے کئی ہفتوں سے گردش کرنے والی افواہوں کی تردید کرنے کی کوشش کی تھی جن میں دعوی کیا جا رہا تھا کہ لوگوں ہسپتالوں میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ غلط ہے اور ان کی اہلیہ فوزیہ اُس انفرمری کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں کام کرتی ہیں اور وہ اس بات کی تصدیق کر سکتی ہیں۔