کراچی: پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن(پائما) نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) سے درآمدی سطح پر کمرشل امپورٹرز پر عائد 3 فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم کرنے، صنعتی وکمرشل امپورٹرز کے لیے یکساں ودہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ، پولیسٹر فلامنٹ یارن پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی ختم کرنے اور پی او وائی پر ٹیکس کی شرح کو کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پائماکے سینئر وائس چیئرمین حنیف لاکھانی اور وائس چیئرمین فرحان اشرفی کی قیادت میں وفد نے انکم ٹیکس آفس میں ممبراِن لینڈ ریونیو آپریشن فیڈرل بورڈ آف ریونیوڈاکٹر محمد اشفاق احمد سے ملاقات میں 7 نکاتی ایجنڈا پیش کیا، جس میں ٹیکسٹائل اور اس سے ملحقہ صنعتوں کو فروغ دینے کے لیے لاگت میں کمی اور حکومتی ریونیو میں اضافے کے حوالے سے اہم تجاویز پیش کی گئیں۔ اس موقع پر چیف کمشنر،آفتاب امام، حمید میمن (ایف بی آر)بھی موجود تھے جبکہ پائما کے وفد میں محمدعثمان، خورشید شیخ، اسلم موٹن، ثاقب نسیم، جاوید خانانی، خرم بھرارا اور سلمان اشرف شامل تھے۔
حنیف لاکھانی اور فرحانی اشرفی نے ممبر اِن لینڈ ریونیو کو بتایا کہ درآمدی سطح پرکمرشل امپورٹرز پر غیر ضروری طور پر 3فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس عائد ہے حالانکہ خام مال درآمدی سطح پر ایک کموڈیٹی ہے اور یہ ممکن نہیں کہ یارن جیسی کموڈیٹی کو 17 سے 18 فیصد کے پرافٹ مارجن کے ساتھ فروخت کیا جائے جو 2 سے 5 فیصد ہو سکتا ہے لہٰذا یہ ٹیکس درآمد کنندگان پر بوجھ ہے اس کو واپس لیا جائے یا پھر ایک فیصد رکھا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ درآمدی سطح پر کیپٹل گڈز پر ایک فیصد، خام مال پر 2فیصد اور فنشڈ گڈز پر 5.5 فیصد ٹیکس عائد ہے لہٰذا ودہولڈنگ ٹیکس صنعتی وکمرشل درآمدکنندگان پر یکساں یعنی ایک فیصد ہونا چاہیے۔ اسی طرح پولیسٹر فلامنٹ یارن(خام مال) پر 2.5فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہے جو ویونگ، نٹنگ اور ہوم ٹیکسٹائل میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ 70 فیصد درآمد ہوتا ہے جبکہ صرف 30فیصد مقامی مینوفیکچررز تیار کرتے ہیں لہٰذا پولیسٹر فلامنٹ یارن پر ریگولیٹری ڈیوٹی مکمل طور پر ختم کی جانی چاہیے۔
پائما کے وفد نے ایف بی آر افسران کی توجہ ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی طرف مبذول کرواتے ہوئے کہاکہ ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی جو اس وقت 2فیصد ہے اسے مکمل ختم کیا جائے نیز پولیسٹر ویلیوایشن چین کے کاسکیڈنگ سسٹم کو جسٹیفائی کیا جائے تاکہ نچلے اور اوپری سطح پر پولیسٹر ویلیو ایشن چین کے کاسکیڈنگ سسٹم کے شرکت کنندگان کے کاروبار کو تحفظ حاصل ہوسکے۔ اگر حکومت اس کا نفاذ کرتی ہے تو اس سے سرمایہ کاری بڑھے گی اور روزگار میں بھی اضافہ ہوگا۔
حنیف لاکھانی اور فرحان اشرفی نے ممبراِ ن لینڈ ریونیو کو یہ بھی بتایا کہ غیر رجسٹرڈ افراد کو مال کی فروخت پر 3فیصد اضافی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جس سے جعلی انوائسز کا رجحان بڑھ جاتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور اس طرح حکومت ایک جانب 17فیصد براہ راست وصولی سے محروم ہوجاتی ہے اور دوسری طرف یونیو کی مد میں خطیر نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ یارن کے ٹرن اوورکے جو ریٹ ہے اس میں اناملی ہے کیونکہ یارن کے ٹریڈرز کا کہنا ہے کہ وہ بڑے والیم کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں جبکہ منافع کی شرح بہت کم ہوتی ہے وہ یارن اسپنرز سے خرید کر ویونگ سیکٹر کو فروخت کرتے ہیں۔ ان کا منافع ایک فیصد یا بعض اوقات اسے بھی کم ہوتا ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے2001میں ایس آر او333جاری کیا گیا جس کے تحت یارن کے ٹریڈرز پر 0.1 فیصد ٹرن اوور ٹیکس عائد کیا گیا جو مجموعی مارجن کا10فیصد بنتا ہے لہٰذا پائما کا مطالبہ ہے کہ اس اناملی کو ختم کیا جائے اورفرسٹ شیڈول پارٹ 1 ڈویژن IX کو اس میں شامل کیا جائے۔
پائما کے وفد نے مزید کہاکہ پولیسٹر یارن کیسکیڈنگ چین خام مال کی حیثیت رکھتا ہے اور اس میں پولیسٹر پارشیلی اوریئنٹڈ(پی او وائے) کو جس ٹیرف اسٹرکچر میں رکھا گیا ہے وہ فنشڈ گڈز کے لیے ہوتا ہے۔ پی او وائے ایک درمیانے درجے کا خام مال ہے جس کو صرف اس لیے تیار کیاجاتا ہے تاکہ پولیسٹر ڈرا ٹیکسچرڈ یارن (ڈی ٹی وائے) تیار کیا جاسکے۔
پاکستان میں پی او وائے درآمد نہیں کیا جاتاجبکہ ڈی ٹی وائے سالانہ تقریباً200ملین ڈالر مالیت کا درآمد کیا جاتا ہے لہٰذا پالیسی ساز ایسے اقدامات عمل میں لائیں جس سے ڈیوٹی کم ہو اور پی او وائے پر ٹیکس کی شرح کم ہو تاکہ ڈی ٹی وائے کی صنعتیں قائم ہوں اور درآمدات پر قابو پایاجاسکے اس سے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوں گے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے اخراج کو بچانے میں بھی مدد ملے گی۔
ممبراِن لینڈ ریونیو آپریشن فیڈرل بورڈ آف ریونیوڈاکٹر محمد اشفاق احمدنے پائما کے وفد کو یقین دہانی کروائی کہ وہ پائما کے پیش کردہ ایجنڈے پر غور کریں گے اور وزارت تجارت ووزارت خزانہ کو بھی آگاہ کریں گے تاکہ اسے بجٹ میں شامل کیا جاسکے۔ انہوں نے وفد کو اپنے ہر ممکن تعاون کی بھی یقین دہانی کروائی جس کا مقصد ملک میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینا اور حکومتی ریونیو میں اضافہ ممکن بنانا ہے۔