بیجنگ: چین کے شمالی شہر تیانجن کی ایک عدالت نے ملک کے سب سے بڑے کرپشن کیس میں ہوارونگ ایسٹ مینجمنٹ کے سابق چیئرمین لائی زیامین کو سزائے موت سنا دی۔ مالی جرائم پر سزائے موت کے فیصلے پر چین میں اضطراب پایا جا رہا ہے، کیونکہ اس کی مثالیں بہت کم ہیں۔
واضح رہے کہ 58 سالہ لائی زیامین کا تعلق چین کی حکمراں جماعت دی کمیونسٹ پارٹی سے تھا، تاہم انہیں 2018 میں پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہو سکی ہے کہ آیا انہیں بدعنوانی میں ملوث ہونے کی وجہ سے پارٹی سے نکالا گیا تھا یا اس کی کوئی اور وجہ تھی۔
بہرحال منگل کے روز تیانجن کی سیکنڈری انٹرمیڈیٹ پیپلز کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ لائی زیامین کو 2008 سے 2018 کے دوران جب وہ سینئر بینکاری ریگولیٹر تھے، مجموعی طور پر 1.8 ارب یوآن (جو تقریباً 276 ملین ڈالر بنتے ہیں) رشوت لینے یا مانگنے کا مجرم قرار دیا گیا۔
سرکاری میڈیا کے مطابق لائی زیامین نے اپنی والدہ کے نام پر بنے ہوئے ایک بینک اکاؤنٹ میں 300 ملین یوآن کی خطیر رقم پارک کر رکھی تھی۔ جبکہ بیجنگ میں واقع ان کا گھر ٹنوں کے حساب سے نقدی سے بھرا ہوا تھا۔
چینی معیشت دان کو دو شادیوں کے الزام میں بھی سزا سنائی گئی تھی۔ ان کی دوسری بیوی سے ان کے دو بیٹے ہیں، جو انہوں نے ظاہر نہیں کی تھی اور وہ اپنی دوسری اہلیہ کے ساتھ ہی رہتے تھے۔
عدالت نے بیان میں کہا کہ لائی زیامین لاقانونیت پسند اور انتہائی لالچی تھا۔ عدالت نے کہا کہ معاشی نقصان بہت بڑا تھا اور جرائم انتہائی سنگین تھے اور انہیں قانون کے مطابق سخت سزا دی جانی چاہئے۔ ہوراونگ ایسٹ مینجمنٹ نے کہا کہ اس کی کمیونسٹ پارٹی کمیٹی اس فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
ادھر چینی کنسلٹنٹ فرم کے چین لانگ نے کہا ہے کہ بدعنوانی کی وجہ سے سزائے موت کے عدالتی فیصلے آنا اب بہت شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ آخری بار 2018 میں شانژی صوبے کے ڈپٹی میئر کو ایک ارب کی رشوت لینے کے جرم میں سزائے موت دی گئی تھی۔