تازہ ترین
سابق وزیراعظم عمران خان کی اڈیالہ جیل میں میڈیا اور وکلأ سے گفتگوتعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔

چین میں اسلام کا مینارۂ نور (آخری حصہ)

cheen main islam ka minaara e noor
  • واضح رہے
  • فروری 1, 2021
  • 4:02 شام

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں عرب باشندے تجارت کی غرض سے بھی چین آتے تھے، اس آمد و رفت سے چین میں دین حق کا پیغام پہنچا

کسی زمانے میں بالکونی کی مینار کو روشن مینارہ سمجھا جاتا تھا جو کہ رات کے وقت ژوجیانگ (Zhujiang) دریا میں کشتی بانوں کی رہنمائی کرتا تھا۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ اس دریا کے علاقے میں چلنے والی بحری جہازوں کے کپتان اس ٹاور کو ایسی نشانی گردانتے تھے کہ وہ ایسی جگہ پر پہنچ گئے ہیں جہاں سے ‘‘شاہراہِ ریشم’’ کی شروعات ہوتی ہے۔ اس مسجد کی بالکونی کے اوپر جو مینار تعمیر کرایا گیا ہے اس کے اوپری حصے میں لو نما (Gourd) گنبد ہے۔

اس گنبد کے دو حصوں میں ڈاوگونگ (Dougong) بریکٹ لگائے گئے ہیں جن سے اس مینار کی چینی طرز تعمیر کی عکاسی ہوتی ہے۔ آپس میں جُڑی ہوئی مربوط سیڑھیوں کا یہ تعمیراتی کارنامہ سونگ (Song) کے سلسلہٗ سلاطین سے قبل چین میں نہیں دیکھا گیا تھا جن کے توسط سے بالکونی تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور جو کھڑکیوں کی تنصیب کے ساتھ چکر کھاتے ہوئے دور تک جاتی ہیں۔

cheen main islam ka minaara e noor

جب 1350ء میں اس مسجد کو دوبارہ تعمیر کرایا گیا تھا تو اس میں ایک کتبہ بھی نصب کیا گیا تھا۔ اس میں جو عبارت لکھی تھی اس کا مفہوم یہ تھا کہ ‘‘مفید بادلوں کے نیچے جہاں پہاڑی ڈھلان کا سلسلہ ختم ہوتا ہے وہاں پتھروں سے تعمیر کرایا گیا ایک شاندار پیگوڈا (عبادت خانہ) واقع ہے، جس کا طرز تعمیر مغربی خطے کے طرزِ تعمیر سے مطابقت رکھتا ہے’’۔

اس طرزِ تعمیر سے تانگ (Tang) سلسلہٗ سلاطین کے شہنشاہ گاؤژو (Gauzu) سے متعارف کرایا گیا تھا اور وسطی خطے میں اُس دور میں اس طرح کے طرزِ تعمیر سے کوئی واقف نہیں تھا۔

اس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ یہ مینار 650 اور 670 کی مدت کے درمیان مکمل ہوئی تھی۔ ابھی حالیہ دنوں تک گونگ ژو میں یہ لائٹ ٹاور (مینار) سب سے زیادہ اونچا ہے اور ایک اہم شاہکار کے طور پر شہر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس مسجد کے احاطے میں امام کیلئے ایک کوارٹر کے علاوہ ایک محافظ خانہ بھی موجود ہے، جہاں پر قدیم دستاویزات کو نہایت احتیاط کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ اس عبادت خانے کو جسے کبھی پیگوڈا قرار دیا گیا تھا، میں روایتی انداز کا ایک وضو خانہ بھی تعمیر کرایا گیا تھا۔ اس کی چھت بھی نماز ادا کرنے کیلئے تعمیر کرائے گئے ہال کی چھت سے مطابقت رُکتی ہے۔

cheen main islam ka minaara e noor

ایک اندازے کے مطابق چین میں اس وقت کُل آبادی میں 2.85 فیصد مسلمان رہائش پذیر ہیں اور چین کی حکومت نے حالانکہ اسلام کو تسلیم کرلیا تھا، لیکن حکومت نے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کو ایک 10 مختلف اقلیتی گروپوں میں تقسیم کردیا تھا۔ البتہ گروپوں میں تقسیم کرنے کے باوجود بھی انہیں اپنے مذہب پر عمل پیرا رہنے کی آزادی دی گئی تھی بلکہ انہیں کچھ خصوصی مراعات بھی دی گئی تھیں۔

چین میں حضرت ابی وقاصؓ کی آمد سے قبل پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کے دور میں عرب تاجر بن کر یہاں آتے تھے اور انہوں نے ہی چین میں اسلام اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دیا تھا۔ حالانکہ یہ کوئی منظم کاوش نہیں تھی۔ تاہم یہ شاہراہ ریشم کی معرفت محض ایک ثمر تھا، جس کا فائدہ مسلمانوں کو اس سفر کے دوران ملا تھا۔

امیہ اور عباسی سلاطین نے بھی چین کے لئے وفود روانہ کیے تھے جن کا چین میں نہایت گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا گیا تھا۔ جن مسلمانوں نے چین میں ہجرت کی تھی انہوں نے ملک کی اقتصادیات کو بہت فائدہ پہنچایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سونگ (Song) سلسلہء سلاطین کے دور میں ایکسپورٹ امپورٹ پر غالب ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: http://www.wazehrahe.pk/cheen-main-islam-ka-minaara-e-noor/

بہت برسوں کے بعد مسلمانوں نے بہت سی مساجد، اسکول اور مدارس قائم کیے تھے، جن میں دور دراز کے ممالک روس اور ہندوستان کے طلباء تعلیم حاصل کرتے تھے۔ ایسی رپورٹس بھی ملی ہے کہ 1970ء کی دہائی میں یہاں پر تقریبا 30 ہزار سے زیادہ مسلم طلبا تھے۔

اس وقت بخارا چین کا ہی ایک حصہ تھا چنانچہ وہ "اسلام کے ستون" (Pillars of Islam) کے طور پر معروف تھا۔ چنگ (Ching) سلسلہء سلاطین (1911ء-1644ء) کے اقتدار کے دوران کچھ تبدیلی رونما ہوئی تھی۔ چنگ، منچو (Manchu) تھے نہ کے ہان (Han) تھے اور وہ چین میں اقلیت میں تھے۔ انہوں نے اقتدار حاصل کرنے کی سازش کے تحت مسلمانوں کے درمیان انفاق پیدا کردیا تھا اور وہ آپس میں ہی دست بہ گریباں ہوگئے تھے۔

جب وہاں پر 1949ء میں پی آر سی (PRC) وجود میں آیا تھا تو اس سے پورے ملک میں اتھل پتھل مچ گئی تھی، جس کے نتیجے میں ثقافتی انقلاب رونما ہو گیا تھا۔ چین کے تمام باشندوں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی اس سے متاثر ہوتے تھے۔ گیارہویں کمیٹی کی تیسری کانگریس کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے تئیں چین نے اپنی پالیسیوں کو وسیع پیمانے پر نرم کیا تھا۔

1978ء میں جب مذہبی آزادی کا اعلان کردیا گیا تھا تو چین کے مسلمانوں نے اپنا وقت برباد نہیں کیا اور اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع کردیا تھا۔ چین کی اس وقت موجود قیادت کے تحت مسلمانوں کے لیے یہ دور نوید سحر کی مانند تھا اور مذہبی رہنماؤں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ ثقافتی انقلاب کے مقابلے اب زیادہ مسلمان عبادت گزار ہو گئے تھے اور نوجوانوں کی اسلام میں پہلے کی بہ نسبت زیادہ دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔

اس وقت چین میں اسلامی نظریاتی کو زبردست طریقے سے فروغ حاصل ہوا تھا اور پورے میں ایسی اسلامی تنظیمیں وجود میں آ گئی تھیں جو بین عقائد کارگزاریوں میں مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرنے لگی تھیں۔ اس وقت اسلامی کتابیں بھی نہ صرف آسانی سے دستیاب ہونے لگی تھیں، بلکہ ایغور اور ترکی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم بھی شائع ہونے لگے تھے۔

حالانکہ چین میں مسلمانوں نے بہت سے مدوجزر کا سامنا کیا تھا لیکن اللہ تعالی نے ان کے حوصلے اور عزم کو اتنی تقویت بخش دی تھی کہ وہ بغیر کسی لغزش کے اپنے عقیدے پر قائم رہے تھے اور آج بھی قائم ہیں۔ خداوند قدوس کی رحمت اور آفاقی تعلیمات کا ہی ثمرہ ہے کہ مسلمان نہایت شجاعت کے ساتھ تمام پریشانیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے ایمان و عقیدہ پر قائم رہنے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے