بچپن میں گھوڑے نے آپ کو زخمی کردیا تھا اس لیے آپ بنو امیہ کے زخمی کے لقب سے مشہور ہوگئے، بعض روایات کے مطابق امیر المومنین خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خواب بھی دیکھا تھا کہ کاش میں اپنے بچوں میں سے اس بیٹے کو دیکھ سکتا جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا.
آپ کی والدہ کا نام لیلی ام عاصم اور والد کا نام عبدالعزيز ہے، آپ مدینہ طیبہ میں 61 ہجری کو پیدا ہوئے. آپ والدین کی طرف سے بڑے بہترین خاندان اور حسن سیرت کے مالک تھے. آپ کی والدہ خلیفہ ثانی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی نواسی ہیں، فاروقی گھرانا آپ کا ننھیال اور ددھیال اموی حکمران ہیں، آپ کے والد عبدالعزیز بن مروان بہت بہادر اور بے حد سخی ہونے ساتھ ساتھ پختہ ارادے کے مالک تھے یعنی جس چیز کا ارادہ کرتے اسے حاصل کیے بغیر نہیں رہتے تھے. جب آپ رحمہ پیدا ہوئے اس وقت آپ کے والد مصر کے گورنر اور چچا خلیفہ تھے، منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والی مثال تو آپ نے سن رکھی ہوگی آج تاریخ کے اوراق سے پڑھ بھی لیں. آپ رحمہ اللہ کے لیے سب سے بڑی خوش نصیبی کی بات یہ ہے کہ آپ کا نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساتویں پشت میں ملتا ہے.
بات کی جائے اگر آپ کے حلیے کی تو آپ جوانی میں انتہائی خوبصورت اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے. جسم بھرا ہوا، داڑھی سے مزین چہرہ جو دیکھے تو دیکھتا ہی رہ جائے. ماتھے پر گھوڑے کی لات سے لگا زخم کا نشان اور سر کے بالوں میں سفید بالوں کی لکیر. جوانی والی رونق آپ کے کم کھانے، کم سونے اور زیادہ وقت آخرت کی فکر کرنے اور ہر وقت اسی سوچ میں گم رہنے کی وجہ سے ختم ہوگئی جس کی جگہ اللہ کا خوف اور تقوے والا رنگ نظر آنے لگا. جسم کمزور اور آنکھیں اندر کو دھنس گئیں. بھلے آپ دیکھنے میں کمزور ہی تھے لیکن اعصاب کے لحاظ سے انتہائی مضبوط تھے.
آپ کی تین شادیاں تھیں جن سے اللہ تعالیٰ نے بارہ بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کی.جس طرح آپ کی والدہ نے آپ کا نام عمر رکھا اسی طرح آپ نے اپنے ایک بیٹے کا نام عمر اور دوسرے کا ابوبکر رکھا جو شیخین خلیفہ اول ابوبکر اور خلیفہ ثانی اپنے پڑنانا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے محبت کی دلیل ہے. اور یہی وجہ ہے کہ جب آپ خلیفہ بنے تو آپ نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کردی اور امت کو پھر سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سخاوت اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی عدالت سے مالا مال کردیا. امت مسلمہ میں پھر سے ایک نئی جان آگئی لیکن وہ لوگ جن کی دکانیں اور جیبیں بند ہوچکی تھیں وہ ہر وقت آپ کی زندگی کا چراغ بجھانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے بالآخر آپ کے غلام کے ذریعے آپ کو زہر دی گئی اور اس چراغ کی روشنی ہمیشہ کے لیے بجھادی گئی. حکمرانی جسے آپ بڑی بھاری ذمے داری سمجھتے تھے اس سے بہت جلد شہادت کے ساتھ بری ہوگئے.