کراچی: مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی 19 اکتوبر کو آواری ٹاور ہوٹل سے ہونے والی گرفتاری کے اثرات اب تک کراچی میں دیکھے جا رہے ہیں۔ صفدر اعوان کی گرفتاری کیلئے دباؤ ڈالنے کیلئے آئی جی سندھ کے اغوا کا واقعہ سامنے آیا تو سندھ پولیس کے تمام اعلیٰ افسران نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ گوکہ تمام اعلیٰ پولیس افسران نے 10 روز میں تحقیقات مکمل کرنے کی یقین دہانی کے بعد چھٹیوں کی درخواستیں واپس لے لیں، لیکن تحقیقات مکمل ہونے میں اب ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے، جس کے بعد پولیس ڈپارٹمنٹ حتمی فیصلہ کرے گا۔
ادھر 23 اکتوبر کی شام کراچی میں جیو نیوز کے رپورٹر عمران علی چانک لاپتہ ہوگئے۔ ان کی آخری اسٹوری کیپٹن صفدر کی گرفتاری کی ویڈیو تھی، جو انہوں نے حاصل کی تھی۔ عمران علی کی گرفتاری کے بعد صحافتی تنظیموں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔ جبکہ سندھ حکومت نے بھی ان کے لاپتہ ہونے کا نوٹس لیا۔ بہرحال تقرہباً 22 گھنٹے تک لاپتہ رہنے کے بعد وہ گزشتہ روز اہنے گھر پہنچ گئے۔
جیو نیوز کے رپورٹر صحافی علی عمران نے 24 اکتوبر کی شب اہلیہ سے رابطہ کیا اور آگاہ کیا کہ خیریت سے والدہ کے گھر پہنچ گیا ہوں۔ ان کی اہلیہ نے بتایا کہ علی عمران کا کہنا ہے کہ جسمانی طور پر کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا لیکن ذہنی اضطراب کا شکار ہوں۔
واضح رہے کہ علی عمران 23 اکتوبر کی شام سے لاپتہ تھے اور ان کے اہلخانہ کے مطابق وہ گھر کے نزدیک بیکری سے سامان لینے کیلئے نکلے تھے جب کہ ان کا موبائل فون بھی گھر پر ہی موجود تھا۔
ادھر عمران خان نے صحافی علی عمران سید کے لاپتہ ہونے اور واپسی کے معاملے کا نوٹس لے لیا۔ اعلامیے کے مطابق علی عمران سید سے متعلق معاملے پر جوائنٹ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کردی گئی ہے اور یہ کمیٹی وزارت داخلہ کی جانب سے بنائی گئی ہے۔
علامیے میں کہا گیا ہے کہ جوائنٹ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی سربراہی وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ( ڈی جی) احسان صادق کریں گے جب کہ کمیٹی میں ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ سندھ، جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل آئی بی سندھ اور ڈی آئی جی ایسٹ کراچی بھی شامل ہوں گے۔
اعلامیے کے مطابق کمیٹی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مساوی نمائندگی یقینی بنائی گئی ہے۔ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ کمیٹی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان قریبی رابطہ یقینی بنائے گی، واقعے کے پس پردہ مقاصد کا تعین کرے گی اور اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔