حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے تو اپنا اقتدار واپس لیا ہے، جس پر امریکہ نے کٹھ پتلی انتظامیہ بٹھا کر قبضہ کرلیا تھا۔ طالبان مجاہدین نے اپنے ملک اور قوم کو امریکی ظلم اور تسلط سے آزادی دلائی ہے۔
اگر ہم پچھلے 20 سالوں کا تجزیہ کریں تو پتہ چلے گا کہ شروع کے کچھ سال طالبان نے کم مزاحمت کی اس کے بعد تو صورتحال ایسی دیکھائی دیتی رہی کہ طالبان جب چاہتے کابل پر قبضہ کرسکتے تھے۔
کیا یہ اس بات کی گواہی نہیں ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں اربوں ڈالر پھونکنے اور اپنی عسکری توانائیاں ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ بلکہ نیٹو اور امریکی افواج نے جب چاہا افغان عوام کا نا حق خون بہایا اور پورے ملک کو تباہ کرکے رکھ دیا۔
انصاف کے علمبرداروں سمیت امریکی اور دیگر اتحادی ممالک کے عوام کو اپنے ارباب اختیار سے ان بیس سالوں کا حساب لینا چاہئے۔ بے گناہ افغانوں کے قتل عام کا حساب کون دے گا۔ طالبان تو سب کو معاف کرچکے۔ لیکن اللہ کے ہاں ظالموں کی پکڑ ضرور ہوگی۔
بہت سارے ممالک کے داخلی معاملات افغانستان سے بھی بد تر ہوتے ہیں لیکن کیا کوئی دوسرا ملک یا بیرونی طاقت کو مداخلت کی اجازت دی جاتی ہے۔ طالبان حکومت بننے جا رہی ہے تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ براعظموں پر پھیلی حکومت ہے۔ جیسے دنیا پر آفاقی نظام حکومت قائم ہونے جا رہا ہے جس کے داعی طالبان ہیں۔
ہمارے پڑوس میں تو صف ِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ (15 اگست 2021) ان کی آزادی کا تھا، اب سے بربادی کی یاد میں منائیں گے، کہیں کہیں اس کے برعکس لوگ سجدہ شکر بجا لانے میں مشغول ہیں۔ پاکستان ابھی ماحول کا جائزہ بہت غور سے لے رہا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان ہمیشہ افغانستان کی فلاح و بہبود کیلئے آگے آگے رہا ہے۔
طالبان نے آمریکہ اور اس کے اتحادیوں کو لگ بھگ بیس سال کا عرصہ دیا کہ وہ افغانستان کو اپنے بس میں کرلیں اور جیسا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں کرکے دیکھ لیں لیکن واضح دکھائی دے رہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی سوائے عمارتوں کی تعمیر اور تھوڑے بہت ترقیاتی منصوبوں کے سوا افغانستان میں کسی بھی قسم کا بدلاؤ نہیں لاسکے۔
آسان لفظوں میں یہ کہا جانا چاہئے کہ افغان سوچ کو قطعی نہیں بدل پائے ہیں اور سوچ کو بدلنے کے شوق نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے کہ ان کی معیشت کو سنبھلنے میں کئی برس لگیں گے۔
یہاں اس گمان کوبھی ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے اپنی تاریخی شکست اور بدترین بے رسوائی پر پردہ ڈالنے کیلئے دنیا کی ساری توجہ کورونا کی وباء پھیلا کر اس طرف مبذول کروانے کی ممکن حد تک کوشش کی ہے۔
بظاہر یہ بات انتہائی قابل ذکر ہے جو تقریباً حرف عام بنی ہوئی ہے کہ افغانستان میں حفاظتی عملے یعنی افواج کو ترتیب دینے کیلئے بیس ارب ڈالر خرچ کئے گئے ہیں، یہ بھی ایک موضوع ہے۔
افغانستان ایسے مستقل مزاج لوگوں کی اماجگاہ ہے کہ جو اپنی صفوں میں موجود غداروں کی بدولت اپنی سرزمین جز وقتی طور پرکچھ آرام کی غرض سے کسی کو قبضہ کرنے کا شوق پورا کرنے کیلئے دے دیتے ہیں یا پھر اپنے بازءوں کی طاقت کو آزمانے کیلئے دشمن کو نرغے میں لے لیتے ہیں، صورت کوئی بھی ہو شکست، نقصان اور ذلت قابضین کے حصے میں ہی آتی رہی ہے۔
طالبان اپنی تاریخ کے اعتبار سے اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کا عزم رکھتے ہیں، جس کی مخالفت میں بیس سال قبل تقریباً دنیا کھڑی ہوگئی تھی اور طاقت کا ایسا زعم تھاکہ راتوں رات افغانستان کو اپنے قبضے میں کرلیں گے۔
پاکستان میں بھی اس وقت کے حالات اور ساری دنیا سے مخالفت کرنے کا حوصلہ بھی نہیں تھا اور زمینی حقائق کی روشنی میں سکت بھی نہیں رکھتا تھا، لیکن اس کا مطلب یہ قطعی نہیں تھا، جس کا بھاری خمیازہ پاکستان نے بھی بھگتا ہے۔
مکمل جائزہ لیں تو پاکستان کا نقصان بھی افغانستان کے نقصان سے قریب تر ہوگا۔ اس کے باوجود پاکستان کے دفاعی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کسی نا کسی طرح سے افغانستان کی مدد جاری رکھی ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افغانیوں کو اپنے ملک پر قبضہ کرنے والوں کے شوق کو پورا کرنے دینا اس لئے ممکن ہوتا رہا ہے کہ افغانیوں کا جنگی جنون جو کہ مومن کیلئے اسلحہ کا زیور کی ترجمانی کرتا ہے کہیں ماند نہ پڑ جائے کہیں انہیں بھی نرم گرم بچھونوں کی عادت نا پڑجائے۔ اس لئے وہ ہر وقت میدان عمل میں رہتے ہیں۔
یہاں یہ بھی ذہن نشین کرلیجئے کہ پہلے برطانیہ جو اپنے وقت کا سپر پاور تھا، پھر سویت یونین (روس) جو اس وقت کا سپر پاور تھا اور اب ترقی یافتہ دور یعنی تکنیک کی ترقی کا دور اس دور کو چلانے والے سپر پاور امریکہ اور اسکے ساتھ دیگر ترقی یافتہ بھرپور تربیت یافتہ جدید ترین اسلحہ سے لیس افرادی قوت رکھنے والوں کو تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
آج افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوچکی ہے اور طالبان نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے ملک کی ترقی اور علاقائی ممالک سے تعلقات بحالی کیلئے رابطے شروع کردیئے ہیں، ملک میں تعلیم کے ترویج کے عمل کو جاری رکھنے کے احکامات بھی جاری کر دیئے گئے ہیں۔ قوی امکان ہے کہ طالبان حکومت نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں پاکستان کو نمایاں کردار ادا کرنے کا موقع دے گی۔
تحریر: شیخ خالد زاہد