ایف پی سی سی آئی بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م اور آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملک کے چھیانوے فیصد کاروبار ایس ایم ای کے زمرے میں آتے ہیں جنہیں بحران سے نکالنے اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے فوری اقدامات اور طویل المیعاد پالیسی کی ضرورت ہے۔
میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ پالیسی ساز بڑے صنعتی شعبوں کی جانب زیادہ متوجہ رہتے ہیں جس کی وجہ سے چھوٹے اور درمیانے درجے کا کاروبار متاثر ہوتا ہے۔ اس پالیسی سے خدمات اور زرعی شعبہ بھی متاثر ہوتا ہے جس کا نتیجہ بار بار غذائی بحران اور دیگر مسائل کی صورت میں نکلتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ920 ایس ایم ایز کا احاطہ کرنے والے ایک سروے کے مطابق کورونا وائرس اور طویل لاک ڈاؤن جیسے بحران نے 95 فیصد ایس ایم ایز کے پیداواری آپریشنز کو متاثر کیا ہے جس سے مالکان اور ملازمین دونوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ بہت سے ایس ایم ایز کے برآمدی آرڈر متاثر ہوئے ہیں جن میں 23 فیصد کے سو فیصد برآمدی آرڈر کینسل ہو گئے ہیں۔ 92 فیصد ایس ایم ایز کے کام میں خلل پڑا جبکہ 48 فیصد نے نقصانات سے بچنے کے لئے ملازمین کو فارغ کر دیا ہے۔
سروے کے دوران 89 فیصد ایس ایم ایزمالکان نے بتایا کہ انھیں مالی مسائل کا سامنا ہے جبکہ صرف 26 فیصد نے کہا کہ حالات بہتر ہونے کی صورت میں سابقہ ملازمین کو دوبارہ نوکری پر رکھ لیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس شعبہ کو حقیقی ریلیف دینے سے ملکی معیشت کی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ ایس ایم ایز کے شعبہ میں کام کرنے والوں کو فنانشل پیکیج، ٹیکس ریلیف، گرانٹ، بجلی و گیس کے بلوں کی ادائیگی میں ریلیف،تنخواہوں کی ادائیگی میں مدداور قرضوں کی واپسی کی شرائط میں نرمی کی جائے۔ اس سلسلے میں وزارت خزانہ، وزارت صنعت، اسٹیٹ بینک اور سمیڈاکے اقدا مات قابل قدر ہیں لیکن ان پر عمل درآمد میں تیزی اور مستعدی کی ضرورت ہے۔
میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ اس وقت بیس ہزار کنٹینرز کراچی کی بند ر گاہ پر موجود ہیں لیکن تاجروں و چھوٹے صنعتکا روں کے پاس ان کو ریلیز کروانے کےلئے فنڈز دستیاب نہیں ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہزاروں ڈالر روزانہ ڈیمرج اور ڈیٹینشن چارجز کا سامنا ہے جس کے لئے حکومت کا تعاون انتہائی ضروری ہے۔ ایسا کرنے سے یہ شعبہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا اور اگر معنی خیز اقدامات نہ کئے گئے تو اس شعبہ کا زوال تیز ہو جائے گا جس سے اس سے وابستہ کروڑوں افراد متاثر ہونگے جبکہ معیشت کا کوئی شعبہ اس کے منفی اثرات سے بچ نہیں سکے گا۔