مزدور رہنما لیاقت علی ساہی نے کہا ہے کہ محنت کش طبقے کی تنخواہیں براہ ست اکاؤنٹس میں اداروں کی طرف سے کریڈٹ کی جاتیں ہیں لیکن بینکوں کی انتظامیہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اسٹیٹ بینک اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ انہوں نے گورنر اسٹیٹ بینک کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ بینکوں میں اکاؤنٹ ہولڈر کو بائیو میٹرک کے نام پر تنخواہوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔ بعض اکاؤنٹ ہولڈر سے تین تین مرتبہ بائیو میٹرک کرائی گئی ہے لیکن جب برانچ میں اکاؤنٹ سے تنخواہ لینے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ بائیو میٹرک نہ کرانے کی وجہ سے آپ کا اکاؤنٹ بند ہو چکا ہے جو کہ حقائق کے صریحاً برعکس ہے۔
لیاقت ساہی نے مزید کہا کہ کراچی میں الرحمن یو بی ایل کی آئی آئی چندریگر روڈ کی برانچ میں اکاؤنٹ ہولڈر کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے ۔ یہ المیہ ہے کہ لوگوں کو بینک اکاؤنٹس کھولنے کی سزا دی جاتی ہے اس میں بھی ایک منصوبہ بندی کے تحت پالیسی سازوں نے تمام تنخواہ دار طبقے کو مجبور کیا ہے کہ وہ بینکوں میں جب تک اکاؤنٹ نہیں کھولیں گے اُس وقت تک ان کو تنخواہ ادا نہیں کی جائے گی۔
اس سلسلے میں تمام بینک تنخواہ دار طبقے کی سیلری کو حاصل کرنے کی مد میں کروڑوں روپے حاصل کرتے ہیں اور اس رقم سے کاروبار کرکے اپنے سرمائے میں اضافہ کرتے ہیں لیکن اس کا فائدہ اکاؤنٹس ہولڈر کو نہیں دیتے۔ اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے کہ عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے نہ صرف احکامات جاری کرے بلکہ جو بینک اس طرح کی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کے خلاف کاروائی عمل میں لاکر اکاؤنٹ ہولڈر کو سہولتیں بھی فراہم کی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت بینکنگ انڈسٹری میں محنت کش طبقے کا بد ترین استحصال کیا جارہا ہے۔ صبح جانے کا وقت ہوتا ہے لیکن واپسی بینکوں کی انتظامیہ کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے۔ انجمن سازی سے بینکوں میں محنت کشوں کو محروم کر دیا گیا ہے اور مستقل بھرتیوں کے بجائے کنٹریکٹ اور تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ کے ذریعے بھرتیاں کرکے بیگار کیمپ بنا دیا گیا ہے جو کہ ملک کے دستور اور بین الاقوامی اداروں کے قوانین کی بھی خلاف ورزیاں ہیں۔ ان تمام مسائل کو حل کرنا اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے نہ کہ سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا تحفظ۔ گورنر اسٹیٹ بینک اپنا کردار ادا کرکے اسٹیٹ بینک ایکٹ 1956 کی روشنی میں تمام بینکوں کی منفی سرگرمیوں کا نوٹس لیں۔